1. ہوم/
  2. نظم/
  3. شاہد کمال/
  4. چیختے آنسو

چیختے آنسو

وہ کس کے ہاتھ میں ہے رخشِ انقلاب کی باگ

وہ اُڑ رہا ہے ہَواؤں میں کیسا سرخ غبار

پڑے ہیں خاک پہ بکھرے ہوئے لہو کے گلاب

فضا کو چیر رہی ہے کسی دھوئیں کی لکیر

ہوا ہے خطۂ ارضِ جحیم کی صورت

مری زمیں کا ہر اک قریۂ بہشت نظیر

گھٹن سی ہوتی اب ان کھلی ہَواؤں میں

کہ روزو شب ہے یہاں جیسے وحشتوں کا نزول

میں اس کی ضرب کی شدت سے آشنا ہوں بہت

یہ تیر بھی ہے یقینا اُسی کے ترکش کا

سماعتوں پہ لگی ہے یہ کیسی مہرِ سکوت

پنہا رہا ہے صداؤں کو بھی کوئی زنجیر

لہو جگر کا ٹپکنے لگا تبسم سے

بدل چکا ہے ہر اک قہقہ اب آہوں میں

تمہارے بعد تو اے میرے کار سازِ حیات

ہے زندگی کا سفر مستقل کراہوں میں

اُڑائی جانے لگیں دھجیاں تقد س کی

شریک اب تو فرشتے ہوئے خطاؤں میں

یہ انقلاب کہ پھر رنگ ونسل کی تفریق

ہے مسجدوں میں کلیساؤں خانقاہوں میں

روا ہے ارضِ مقدس کی حرمتوں کا خون

ہیں پاسبانِ حرم ہیں ہلاکو و چنگیز

کیا مر چکا ہے لہو بھی تری حمیت کا

کرے رسولؐ کی امت غلامیٔ انگریز

غبارِ راہ سرِ آسماں تک آ پہونچے

ستم کے دستِ جسارت کہاں تک آ پہونچے

غرورِ نشۂ باطل کو توڑ دو اُٹھ کر

کلائی دستِ ستم کی مروڑ دو اُٹھ کر

اُٹھاؤ ہاتھ میں عزمِ حسینؑ کی تلوار

یزیدِ وقت سے پھر انتقام لینا ہے