1. ہوم/
  2. نظم/
  3. شاہد کمال/
  4. مِرااُستاد مہرِ جانِ جہاں

مِرااُستاد مہرِ جانِ جہاں

چاند کو چھونے کی تمنا

ستارے توڑنے کی ضد

سبک سار ہاتھوں کی نیم وَا ہتھیلی میں

سورج کو قید کرنے کی کوشش

ہَواکا آنچل تھام کر

گہرے نیلے آکاش میں اُڑنے کی آرزو

جذبے کی کچی دیواروں پر

ہر روز ایک نئے خواب کی چھت ڈھالنا

یہ گئے دنوں کی باتیں ہیں

مکتب کے صحن میں

اپنی ماں کی انگلی پکڑ کر چلنے والاوہ سرکش فرشتہ

اب اپنی اَنا کا ہاتھ تھام کر چلنے لگا ہے

لیکن!

ابھی اُس کا اعتماد اپنے ہنر کی تہذیب سے نا آشنا ہے

عنقریب اُس کی تہذیب کا آذر

جس کی نگاہیںپتھروں کے سینے میں پوشیدہ

سیکڑوںنا تراشیدہ بتوں کے رقص کی تماشہ بیں ہیں

وہ فن کے کعبے کا کلید بردار

روشن پیشانیوں والامتین قامت شخص

رفتہ رفتہ اُسے علم وآگہی کے سربستہ رموز سے آشنا کردے گا

عجیب بات ہے !!!

اب سوچتا ہوں؟تو ہنسی آتی ہے

جب میں بچپن میں

اپنی ماں سے خدا کو دیکھنے کی ضد کرتا

تو میری ماںمجھے بنی اسرائیل کے قصے سناتی ب تھی