1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید جعفر شاہ/
  4. بلوچستان میں سیاسی شعبدہ بازی عروج پر

بلوچستان میں سیاسی شعبدہ بازی عروج پر

صوبہ بلوچستان میں ایشیاء کے سب سے بڑے حلقے این اے 260 کوئٹہ چاغی کا 15 جولائی کو ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ یہ حلقہ پشتونخواہ میپ کے مرحوم امیدوار رحیم مندوخیل کی ہلاکت کے بعد خالی ہوگیا تھا۔ اس حلقے میں دوبارہ سے الیکشن لڑنے کیئلے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دوبارہ سے الیکشن لڑنے کے احکامات جاری کر دیے تھے۔ بلوچستان کے قوم پرست مزہبی اور نیشنل پارٹیوں کی سیاسی شعبدہ بازیاں بھی عروج پر پہنچ چکی ہے، سیاسی شعبدہ بازی اپنی جگہ ہمارے سیاست دانوں کو یہ سوچھنا چاہے خاص کر ان سیاسی قیادت کو جو عرصہ دراز سے اس صوبے پر اپنی حکومت کر رہے ہیں کہ این اے 260 ایشیاء کا سب سے بڑا حلقہ ہے پی بی 5 پی بی 6 چاغی نوشکی دالبندیں وغیرہ اس میں شامل ہے صرف پی بی 6 کو ایک ایم این اے کی سیٹ دینا چاہے تھی۔

یہ حلقہ کیوں ایشیاء کا سب سے بڑا حلقہ ہے وہ اس لئے کہ 1991 میں مردم شماری کا بائیکاٹ کیا گیا تھا بائکاٹ کس نے کیا تھا سب کو پتہ ہے۔ آج بلوچستان میں سب سے بڑا ظلم حلقہ کوئٹہ چاغی این اے 260 سے ہورہا ہے لوگوں کی امید تھی کہ قوم پرست جماعت یہ بنیادی مسائل حل کرینگے، مگر 4 سال گزرنے کے باوجود یہ بنیادی مسائل حل نہ کراسکے۔ صوبے کی وہ قوم پرست جماعت جو کبھی لروبر پشتون کی بات کرتے ہے یا نئے صوبے جنوبی پشتونخواہ کا دعوایٰ کرتے آرہے ہیں وہ ان چار سالوں میں تو کبھی نئے صوبے کی بات تک نہیں کی ہے البتہ اپنے احباب اور اقربا پروری میں سب سے آگے نکل گئی ایک قوم پرست پارٹی سے ایک ہی قبیلے اور خاندانی پارٹی بن گئی۔ اب بلوچستان میں ہونے والے ضمنی انتخابات حلقہ این اے 260 میں پھر سے سیاسی پچ پر کیھلنے کے لئے اتر گئی ہے اور بھر پور اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس بار صوبے کے عوام ان سے ضرور یہ سوال آٹھائنگے کہ ان چار سالوں میں آپ نے اس صوبے اور ہمارے لئے کیا ڈیلور کیا ہے جس کی بنا پر آپ ووٹ مانگنے آئے ہیں؟

دوسری جانب وہ مزہبی پارٹی جو اکثر اسلام مزہب کے نام پر ووٹ حاصل کرتے آرہے ہیں اس بار تو جے یو آئی ف کی سیاسی کمپئین تو مسجد کے اندر محراب میں بھی ہوئی جہالت اور غلاظت کی انتہا کردی گئی۔ ہمارا مزہب اسلام کبھی بھی ہمیں یہ اجازت نہیں دیتی کہ آپ اپنی ناپاک سیاست کو مسجد کے اندر بھی لے کر آئیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ہماری قوم اس قدر جہالت اور جزبات کی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اس موضع پر ایک شعر یاد آیا

سرمایہ دار لوٹیرے ہیں نہ تیرے ہیں نہ میرے ہیں

کچھ مزہب کے رکھوالے ہے جو ناحق خون بہاتے ہے

یہ ملکی دولت لوٹتے ہے اور بھی شان سے جیتے ہیں

سرمایہ دار لوٹیرے ہے نہ تیرے ہے نہ میرے ہیں

اب مجھے پختہ یقین ہوگیا ہے اس صوبے کے زی شعور عوام ان لوگوں کے اصل چہرے کو پہچان چکے ہونگے یہ وہ لوگ ہے جو اسلام قرآن کو ڈھال بنا کر اپنی سیاسی کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے، دوسری جانب ہمارے وہ تبدیلی کے دعویدار جس کا میں نے اپنے پیچھلے کالم میں زکر کرچکا ہوں۔ مصنوعی تبدیلی کے نام سے پاکستان تحریک انصاف کی اس تبدیلی اور نئے پاکستان بنانے کا دعویدار ہونے کی داد دینی چاہے یہ پارٹی اپنی پارٹی کے اندر انصاف فراہم نہ کرسکی پھر یہ عوام کو کیا انصاف فراہم کریں گے۔ پارٹی کے اندر انتشار اور غیر فعالیت اپنی جگہ اس پارٹی سے عوام نے بڑی امیدیں رکھی ہے اس بار پی ٹی آئی کی مرکزئی صوبائی قیادت نے اچھا درست فیصلہ کیا ہے۔ حلقہ این اے 260 کے لئیے ڈاکڑر منیر بلوچ کو نامزد کیا گیا ہے۔ ڈاکڈر صاحب کو میں خود ذاتی طور پر جانتا ہوں کہی بار اُن سے انٹرویو بھی لے چکا ہوں وہ انتہائی شریف اور نفیس ہر دلعزیز انسان ہے۔ اکثر کہتے ہے کہ مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اللہ پاک نے مجھے عزت دولت شہرت سب کچھ عطاکیا ہے میں اس پسماندہ غریب لاچار صوبے کے عوام کے فلاوبہبود کیلئے کچھ کرنا چاہتا ہوں اور اللہ پاک سے دعا کرتاہوں کہ اللہ پاک مجھے اس مشن میں کامیابی عطا کردیں۔

باقی ساری پارٹیوں نے اقتدار میں آکر کسی نے اس قوم کو اسلام مزہب کے نام پر لوٹا تو کسی نے قوم پرستی اور لسانی بنیادوں پر لوٹا ہے، ہمیں کسی کی اقتدار میں آنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے البتہ وہ قیادت اقتدار میں آئے جو عوام کی اُمیدوں پر پورا اتریں فیصلہ صوبے کے عوام پر چھوڈ دیتے ہیں کہ وہ آپنے ووٹ کے طاقت کے زریئے کس کو منتخب کرتے ہیں۔