1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید جعفر شاہ/
  4. فوٹو جرنلسٹ جمال ترکئ کا اعزاز

فوٹو جرنلسٹ جمال ترکئ کا اعزاز

صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حالیہ دنوں میں انہوں نے ندر لینڈ میں عالمی فوٹو جرنلسٹ ایوارڈ حاصل کیا تھا۔ وہ ایک واحد پاکستانی تھے جنہوں نے یہ ایوارڈ اپنے نام کردیا تھا سب سے بڑی اور اعزاز کی بات یہ ہے انہوں نے یہ ایوارڈ اپنے قومی پشتون ثقافتی لباس شلوار قمیض پگڑی میں ذیب تن ہو کر حاصل کیا تھا اس موقع پر مجھے ایک مشہور قول یاد آرہا ہے کہ کرپٹ اور پسماندہ معاشرے میں پیدا ہونا گناہ نہیں ہیں بلکہ اس کرپٹ اور پسماندہ معاشرے میں اپنا تقدیر نہ بدلنا گناہ کے مترادف ہیں۔ دوسری جانب یہ ان لوگوں کے منہ پر ایک تمانچہ ہے جنہوں نے عالمی شہرت اور ایوارڈ یافتہ صحافی ترکئ پر کوئٹہ پریس کلب میں پابندی بھی عائد کر دی گئ تھی مختلف نام نہاد تنظیمیں ملکر بھی اس نڈر صحافی کو اپنے پیشہ ورانہ زمہ داریوں سے نہ رکھ سکے ترکئ نے ہمت اور حوصلے کیساتھ اپنا جدوجہد جاری رکھا۔

بہ شکریہ: گیٹی امجز

یہ مخصوص ٹولہ اور خلائی مخلوق جو خود کو صحافت کے علمبردار کہلوانے والے صحافت کے اس منڈی میں پیسہ بٹورنے والے میرے نزدیک انہیں صحافتی حقدار کا بھی کوئی علم نہ ہوگا یہ لوگ ہمہ وقت اس مقدس پیشے کیساتھ کھلواڑ کر رہے ہوتے ہیں بحیثیت اس شعبے کا طالب علم اصل میں وہی صحافی کہلانے کے قابل ہیں جو صحافی درد، دکھ اور احساس رکھتا ہو نہ کہ اس مقدس پیشے میں رہ کر پریس کی آڑ میں وہ آپنا کاروبار اور جاب کو بھی برقرار رکھ سکے اس فیلڈ میں نان پروفیشنلزم کی انتہا ہوگی ہے۔ ان چند کالے بھیڑیوں کیوجہ سے اس مقدس پیشے کو بھی مسخ کر دیا گیا ہے۔ میری ان لوگوں سے گزارش ہے جنہوں اس شعبہ صحافت میں ماسٹر کی ڈگری لی ہوئی ہے وہ آئیں اور اس شعبے میں آپنا کلیدی کردار ادا کریں۔

تو بات ہورہی تھی ہمارے کولیگ جناب جمال ترکئ صاحب کی اب میں اپنے قارعین کی توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں کہ جمال صاحب نے فیلڈ میں اپنا لوہا کس طرح سے منوایا، اپنے کیرئر کے آغاز سے لیکر اس عالمی ایوارڈ تک رسائی کا عمل کس قدر مشکل اور کٹھن حالت میں طے کیا ھے۔ جیسے آپکو معلوم ہے کہ بلوچستان کے حالات کس قدر سنگین نوعیت کے ہیں یہاں فیلڈ میں کام کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے۔ بلوچستان میں سب سے زیادہ ہمارے صحافی بھائی قتل ہوہے ہیں۔ جمال ترکئ 17 مئی 2011 میں جو سانحہ خروٹ آباد کا واقع پیش آیا تھا اس واقع کے بعد جمال کی فوٹیج ویڈیوز سوشل میڈیا ٹی وی اور اخبارات میں اتنی وائرل ہوگئی تھی کہ ہر ایک کے زبان پر جمال ترکئ کا ہی نام تھا اور پر اس کے بعد 8 اگست سانحہ سول ہسپتال کا تھا۔ اس طرح کے کئی واقعات میں اسکی فوٹیج اور ویڈیوز مین سٹریم ملکی اور بین لاقوامی میڈیا کا توجہ مرکز رہ چکی ہیں۔ جمال کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ بروقت اور عین موقع پر پہنچ جاتا ہے اسکے پاس تو کوئی الہ دین کا چراغ تو نہیں ہے البتہ فلیڈ میں کام کرنے کا جو ہنر اور سکل اسکے پاس موجود ہے میرا نہیں خیال کہ وہ ملک کی بڑے بڑے میڈیا چینل اور بڑی بڑی تنخواہیں لینے والوں کے پاس ہوگی، کیونکہ نہ ڈی ایس این جی کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ کیمرہ مین یا ڈرایور کی بس ایک چھوٹا سا کیمرہ اٹھا یا اور موٹر سایکل کا کک دبایا فورا ہی موقع پر بروقت پہنچ جاتا ہے۔

دوسری جانب ہمارے معاشرے کا ظرف دیکھیں اس انسانی خدمت سے سر شار انسان کو ہمیشہ ہی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس کے باوجود اس نے عوام میں بھی کافی مقبولیت اور شہرت حاصل کی ہے کیونکہ صحافی معاشرے کا ایک آئینہ کی مانند ہوتے ہیں اور معاشرہ اس آئینہ میں اپنا اچھا اور برا معیار دیکھتے ہیں۔ اس کا فیصلہ عوام نے کرنا ہیں جمال ترکئ نے مخالفین کی طرف سے برسائے گئے تیر کے باوجود اپنے مقدس پیشے اور صحافتی زمہ داریوں کو نبھاتے ہوے آج سے اگے نکل پڑا ہے اور عالمی فوٹو جرنلسٹ کا ایوارڈ اپنے ملک دوستوں اور پسماندہ صوبے کے نام کر دیا۔