1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید جعفر شاہ/
  4. تعلیم اور مظلوم عوام

تعلیم اور مظلوم عوام

بورژوار ریاست صرف اپنے ننگے مفادات کی خاطر حکمران طبقے کی خدمت کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ عام مظلوم عوام کس حد تک اذیت سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاستوں کا تسلط بھی اسی بنیاد پر ہیں کہ وہ زندگی کے ہر شعبے پر اپنےتسلط کو برقرار رکھنے کیلے نت نئے حربے استعمال کرتے ہیں۔ عوام کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھتے ہیں اور بینکنگ نظام طرز تعلیم کو فروغ دیتے ہے تاکہ عوام کو اپنے بنیادی حقوق جیسے سیاسی و سماجی شعور سے دور رکھ سکیں اور اسی طرز کے نظام تعلیم میں مزید اسکو الجھا سکیں کیونکہ اگر عوام میں سیاسی و سماجی شعور پیدا ہونا شروع ہوگیا تو دنیا بھر کی سرمایہ دارانہ ریاستیں اپنے انجام کو جا پہنچے گے۔
اس سرمایہ دارانہ نظام سے نجات حاصل کرنے کیلے ایک واحد حل ہے اور وہ ہے سوشلسٹ نظام۔ اس نظام کو پھر سمجھنے کیلے کافی موثر مطالعہ کرنے کی ضرورت درکار ہوگی سوشلسٹ اور بورژوار نظام کے درمیان فرق یہی ہے کہ یہ ظالم اور مظلوم کے تضاد کا حل ہے۔ بقول کارل مارکس کے علم سیاست مزہب اور ارٹ پر غور وفکر کرنے سے پہلے انسان کے خوراک لباس اور مکان پر غور وفکر کرنا چاہے۔ پاکستان میں بھی کچھ انقلابی نام نہاد لیڈر موجود ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر مظلوم عوام کو انقلاب کے نام پر مزید اسکا استحصال اور نا امید کیا جارہا ہے۔ ہمارے انقلابی خان اور علامہ طاہر القادری ظالموں کے دوسرے روپ میں مظلوموں پر آذادی کے نام پر تسلط اور غلبے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مظلوم اور ظالم کے تضاد کا حل نہیں ہے، بلکہ پرانے تضاد کو صرف الٹا کردینے کے مترادف ہوگا۔ عوام الناس کو چاہے کہ اپنے بنیادی مسئلے کو پہچانے کیلے ان نام نہاد انقلابی لیڈروں کو رد کردیں اور مارکسیزم فلسفے کو اپناتے ہوے کامریڈ شپ کی نبیاد پر ان ظالموں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
کامریڈ شپ کے زریعے ہی ہم اپنی منازل کو پہنچ سکیں گے اور معاشرے میں مکالمہ کرنے کا شعور بھی بیدار کرنا چاہے جیسا کہ استاد اور طالب علم یہ ایک خالی برتن کیطرح ہیں اور اس خالی برتن کو پورا کرنے کیلے مکالمے کی اشد ضرورت پڑتی ہے، انسان کی نشوونما خاموشی میں نہیں ہے بلکہ الفاظ اور آچھے موءثر مکالمے میں ہے اپنے الفاظ کے حق سے محروم انسان کو جدوجہد کرنی چاہے کامریڈ شپ آپکو اپنے پارٹی یا تنظیم کے اندر سرگرم کارکن کے بجاے آپکو شعوری علم اور شعوری تنقید کا راستہ ہموار کریں گی۔ کامریڈ جدوجہد کیساتھ ساتھ معاشرے کی دیرینہ مسایل کی نشاندہی اور سمت کا تعین کریں گی۔ انسانی تاریخ سے آشنا ہونگے سماج اور انسانوں سے بالا کوئی بھی تاریخی حقیقت اپنا وجود نہیں رکھتی تاریخ صرف انسانی تاریخ ہے جسے خود انسان تخلیق کرتے ہیں تاریخ کے تخلیق کے عمل میں تاریخ اپنے ساتھ انسانوں کو بھی بناتی ہیں ہمارے ہاں لاشعوری کا یہ عالم ہے، لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر جو حالت مسلط ہیں اس میں خدا کی منشا شامل ہے ہم کیا کرسکتے ہیں۔ جسے تسلیم کرنا میرے لیے لازم سوال اٹھانا اور تجسس کرنا انسان کی فطری عمل ہے اس وقت پاکستان میں جو افراتفری اور چپقلش پاہی جاتی ہے یہ اصل میں بنیادی طور پر سرمایہ دار اور مظلموں درمیان ایک جنگ ہیں۔
ہمارے موجودہ حکمران کس حد تک اپنے عوام کیساتھ مخلص ہے یہ ہمیں اس کے طریقہ واردات سے ہی پتہ چلتا ہے موجودہ حکمران اس قدر اخلاقی پست حالی کا شکار ہوچکے ہے کہ کرپٹ ہونے کیساتھ ساتھ وہ اقتدار کا جواز ہی کھو چکے ہیں۔ پاناما کا ملک میں ہنگامہ رہ گیا ہے بد قسمتی سے اس کیس میں بھی عوام کا صرف اور صرف قیمتی وقت برباد کر دیا گیا ہے اصل بنیادی مسئلے سے توجہ ہٹانے کیلے اس کیس کو ہی ملک اور عوام کا مسلہ بنادیا گیا میرا نہیں خیال کہ عوام کا اس کیس سے کوئی سروکار ہوگا اور نہ ہی کسی کے جانے یا انے سے کوہی فرق پڑے گا اس نظام میں رہ کر کسی کا کوئی بھی مسلہ حل نہیں ہوگا دوسری جانب جو عوام کے غم دکھ پر مر مٹنے والے لیڈرز پر لازم ہے کہ وہ اپنے رہن سہن کے انداز سے فکر و احساس تک کے نئے طریقہ کار کو اپنا کر خود کو ایک نیا جنم دیں لیکن ایسا جنم درحقیقت انقلابی وابستگی سے قبل وجود کے موت کے بغیر ممکن ہی نہیں مظلموں کیساتھ حقیقی کامریڈ شپ کی بنیاد پر ہی وہ ان کی زندگیوں میں پاہے جانے والے رویے کے خدوخال سے حقیقی اشناہی حاصیل کرسکتے ہیں ۔۔۔