1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید جعفر شاہ/
  4. مصنوعی تبدیلی

مصنوعی تبدیلی

پانچ سال کے بعد چیرمین پاکستان تحریک انصاف جناب عمران خان صاحب کو آخر کار بلوچستان بھی یاد آہی گیا۔ وہ اب اپنی اس تبدیلی کے ناکام تحریک 19 انیس مئی بروز جمعہ بلوچستان میں بھی آزمایں گے۔ کہتے ہیں کہ دیر اید درست اید یہ محاورہ آپ نے اکثر سنا ہوگا پر سیاست میں ایسا بلکل نہیں ہے۔ اچھے لیڈر اور اچھے سیاستدان وقت پر ہی اچھے فیصلے کرتے ہیں صرف کھوکلے نعروں اور بڑے بڈے جلسوں سے اگر تبدیلی آتی تو واقعی ہم مان جاتے کہ تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی اگئی ہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے عوام سب کچھ جانتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں ان چار سالوں میں خان صاحب کے پی کے ایسی کونسی تبدیلی لے کر آے ہیں جو ہر وقت اس تبدیلی کا واویلہ مچا رہے ہیں؟
کچھ حد تک تو ہم بھی اس تبدیلی کو مان لیتے ہیں کے پی کے میں جو محکمہ پولیس میں ریفارمز لے کر آے ہے وہ حق بجانب اور مثبت تبدیلی ہے وہ تو اسکے ناقدین اور سخت حریف (ن) لیگ والے بھی مانتے ہیں، دوسری جانب یہ بھی کسی سے ڈھکی چپھی بات نہیں ہے کہ کے پی کے میں سب سے زیادہ تعلیمی اصلاحات یونیورسٹیاں سکول کالجز اے این پی کے دور حکومت میں بنے تھے اب اسکو مزید فعال اور کوالٹی ایجوکیشن میں تبدیل کرنا موجودہ اُس صوبے کے حکومت کی زمہ داری بنتی ہے۔ پی ٹی آئی کی تبدیلی اسلیے بھی مصنوعی نظر آرہی ہے کیونکہ لانگ مارچ سے لیکر لاک ڈاون تک اس تبدیلی کی تحریک کو ناکامی ہی نصیب ہوئی ہے۔ اسکی اصل وجوہات اور محرکات پارٹی کے غیر فعالیت اور کارکنوں کی تربیت کا سب سے بڈا فقدان ہے۔ جب کسی سیاسی پارٹی کا ڈھانچہ ہی نہ ہو تو اس پارٹی کا پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں اپنا وجود قایم رکھنا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔ کارکنوں کو ایک ہی سمت میں لے جانا اور تربیت دینا لیڈر اور مرکزی قایدین کی زمہ داری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ تبدیلی اور نیا پاکستان عمران خان خود بناے گا یا اسکے ارد گرد آزمائے ہوے کارتوس کو ایک بار پھر سے آزمائیں گے۔
اب بلوچستان کو ہی دیکھ لیں سب سے پہلے قاسم خان سوری کو صوبے کا صوباہی صدر منتخب کیا گیا تھا جوکہ بہت ہی اچھا فیصلہ تھا، کیونکہ قاسم خان سوری اچھے سیاسی بصیرت کیساتھ عام متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اور کارکن رہنما تھے۔ کافی حد تک حسب توفیق پارٹی کو صوبے بھر میں فعال رکھا تھا پھر بعد ازاں اس تبدیلی کی تحریک میں ایک اور نئی ہوا پھونک دی گئی سوری کو صدارت سے ہٹا کر نواب ہمایوں خان جوگیزہی کو یہ عہدہ سونپا گیا۔ جوگیزہی صاحب ایک اچھے نفیس اور ہر دل عزیز شخصیت کے مالک ہیں، پر انکا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وہ ایک غیر سیاسی شخصیت ہیں، اس بیچارے کو پاکستان کی سیاست کے ننانوے رنگ کیسے سمجھ میں اتے اور بعد میں ایک بار پر صوبے اور پارٹی کے مشاورت کے بغیر اُس کو بھی فارغ کر دیا گیا۔ سب سے بڑھ کر اب پارٹی کی صوباہی صدارت سردار یار محمد رند کے حوالے کردی گئی ہے۔ وہ سردار جو کبھی (ق) لیگ یا خود اپنے حلقے میں بلوچ الیکشن لڑھ چکا ہے اور کئی بارقومی اسمبلی کا حصہ رہ چکے ہیں۔
وہ خود تو اپنے علاقے صوبے میں تبدیلی نہیں لا سکے اب شاید اس پارٹی میں رہ کر کوئی تبدیلی لے کر آئیں۔ تو یہ تھی پی ٹی آئی کا بلوچستان میں کا منظر نامہ۔ اب کارکنان خود یہ طے کر لیں کہ تبدیلی نہ ائی تھی اور نہ ہی آئے گی شروع میں تو میں خود عمران خان اور تبدیلی کا مداح تھا بعد ازاں اس میں کچھ نئی ایسی نظر آئی اور خود کنارہ کشی اختیار کرلی۔ جب اس پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی شروع میں ملک کے سارے تجزیہ نگار اور دانشور اسے انڈیا کی طرح عام آدمی کا پارٹی ہی تصور کر رہے تھے پر وقت کے ساتھ ساتھ اس عام آدمی پارٹی کو اقتدار کی اتنی پیاس لگ گئی کہ عام آدمی سے خواص کی پارٹی بن گئی۔ بلوچستان کے سیاسی و سماجی حالات ملک کے دیگر صوبوں سے قدرِ مختلف ہیں یہاں پر قبائل لوگ رہتے اور قبائلوں کا وتیرہ رہا ہیں وہ ایک دم کسی نئی دریافت یا تبدیلی کیجانب کوئی رجحان ہی نہیں ہوتا۔ یہاں پر تعلیم صحت انفراسٹرکچر جیسے سنگین نوعیت کے مسائل ہیں۔ اگر واقعی عمران خان ان دیرینہ مسائل کو حل کرسکتے ہیں تو یقینا بلوچستان والے اسے ویلکم، خوش آمدید، ببو بخیرٹ، وشدکے اور پخیر راغلے کہیں گے۔
اب کچھ غیر سیاسی موضوع پر بات کرنا چاہوں گا سیاست کے دنگل سے ہٹ کر عمران خان نے اس قوم کو بہت کچھ دیا ہے جو باقی نام نہاد لیڈر نہ دے سکے۔ ورلڈ کپ ہو یا فلاحی کام ہو ہسپتال ہو یا نمل یونیورسٹی انکی ان فلاحی کاموں کیوجہ سے کوئی بھی عمران کی تعریف کیئے بغیر نہیں رہ سکتا، تبدیلی آئے یا نہ آئے پر اس صوبے کے لاچار اور بے بس لوگوں اور نوجوانوں کی عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ جلسے میں اپنی تقریر میں بلوچستان کے لیے بھی شوکت خانم کینسر ہسپتال کو تعمیر کرنے کا اعلان کردیں۔