1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید جعفر شاہ/
  4. بلوچستان اسمبلی یا مچھلی بازار

بلوچستان اسمبلی یا مچھلی بازار

بلوچستان اسمبلی میں گزشتہ روز عوامی نمائندے ایک دوسرے پر دست وگریبان ہوگئے چاکر خان یونیورسٹی کے مسودہ قانون بل پر پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور حکومتی اراکین کے درمیان شدید ہنگامہ آرائی اور ایک دوسرے کیخلاف طنز بھرے تیر چلائےگئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ ایوان میں زبردستی مسلط کی جارہی ہے کسی کی زبردستی کو تسلیم نہیں کرینگے حضور یہ زبردستی تو آپ تسلیم کرچکے ہیں اب بھیگی بلی کیطرح چال چلنے سے باز آجائیں۔ ۔ ۔

شدید ہنگامہ آرائی میں چاکر خان رند یونیورسٹی سبی کا مسودہ قانون وتحریک منظور کرلی گئی۔ آخر ضرورت کیاتھی یونیورسٹی کو تعصب کا رنگ دے کر یونیورسٹی کو متنازعہ بنایا جائے، صوبے میں پہلے ہی سے تعصب کی لگی آگ کو مزید بھڑکایا جائے وہ بھی صرف اور صرف آپنے مفادات اور اپنے پشتون بھائیوں کے جذبات سے کھیلنے پھر سے دھوکہ دے کر اپنا ووٹ بنک برقرار رکھنے کی بھر پور ناکام کوشش کی ہے، جب آپ نے بلوچستان یونیورسٹی میں محمدخان اچگزئی کے نام سے ایکسپو سینٹر بنایا گیا تھا تب تو کسی بھی بلوچ قوم پرست رہنما نے اس سینٹر پر نہ تنقید کی اور نہ ناراض ہوئے فراخ دلی کے ساتھ آپکی کوشوں کو سراہا بھی اس لیئے بلوچستان میں رہ کر افغانستان اور افغان کی باتیں چھوڑیں صوبے کے باسی کیطرح چاکرخان رند یونیورسٹی کو تسلیم کرلیں۔ ۔

اگر آپ واقعی سنجیدہ تھے کہ بلوچستان کے اس حصے کو جنوبی پشتونخواہ ہوناچاہے آپ ان پانچ سالوں میں عملی مظاھرہ پیش کرتے اور آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے قانون پاس کرتے تاریخ میں زندہ رہنے کیلئے اور پشتونوں کی ترجمانی کرنے کا موقع بھی ضائع نہیں کرتے۔

ملک کی دیگر اسمبلیوں کیطرح بلوچستان اسمبلی کی بھی آئینی مدت مکمل ہوچکی ہیں اور کئر ٹیکر سیٹ اپ کیلئے تاحال مشاورتیں جاری ہیں بنیادی سوال یہ ہے کہ عوام اپنے حلقے کے نمائندوں کو اسمبلی میں بھیجتے اس لیے ہیں تاکہ انکے نمائندے علاقے اور لوگوں کی فلاح وبہبود کیلئے اچھی قانون سازی کرائیں تاکہ انکی زندگیوں میں کوئی موثر تبدیلی لاسکیں، ٹھیک پانچ سالوں سے یہ نمائندے خواب غفلت کی نیند میں سوتے رہے اور آج اسمبلی کی الوداعی سیشن میں انہیں عوامی ایشوز کے اوپر بات کرنے کا موقع ملا ایک مشہور قول ہے کہ دیر آید درست آید، پر سیاست میں ایسا بالکل نہیں اچھا اور کامیاب سیاستدان وہ ہے جو وقت سے پہلے اور وقت پر فیصلے کرے نہ کہ ہمارے نام نہاد نمائندے جو ایوان کو سر پر اٹھاکر مچھلی بازار بنائے، اگر اسی طرح کے مچھلی بازاروں سے عوام کے دیرینہ مسلئے حل ہوسکتے تو پھر اس طرح کے نام نہاد نمائندوں کو مقدس ایوانوں میں نہ بھیجتے بلوچسان اپنے قوم پرستوں کی وجہ سے ہمیشہ کیطرح فریادی کا کردار ادا کرتا رہا ہے کیونکہ جب اپنے ہی اپنی مٹی اور دھرتی سے بے وفائی کریں گے، پھر ہمیں اغیار سے بھی فریاد گلے شکوے کرنے کا جواز نہیں بنتا، وفاق بلوچستان کے مسائل کو ختم کرنے کے لئے جینون اور سنجیدہ اقدامات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے جیسے صوبے کی محرومیوں کو ختم کرنے کے لئے وہ چیرمین سینٹ کا انتخاب ہو یا باپ (BAP) بلوچستان عوامی پارٹی کی شکل ہوں اس پارٹی اور اسکے قیادت سے بلوچستان کے باسی کیا توقعات رکھیں گے وہی پرانے لوگ اور پہلے سے الیکٹیبل نمائندے ہے جیسے ایک موبائل نیٹ ورک کمپنی کو دوسری کمپنی میں کنورٹ کردیا جائے (BAP) یعنی باپ پارٹی باپ بننے سے پہلے ہی باپ بن چکی ہے۔ ۔ ۔

آج لکھنے کا اتفاق اس لیے ہو کہ غالبا دو مہینے بعد جنرل الیکشن ہونے جارے ہیں چھوٹا سا پیغام تھا عوام کے نام کہ آپکے نمائندے پچھلی بار کیطرح اس بار بھی بغیر کسی دعوت نامہ کے وہ آپکے حلقے میں تشریف لارہے ہیں اور آپ کو ایک بار پھر بے وقوف بنانے کیلئے آپ سے آپکا قیمتی ووٹ مانگیں گے خدارا اس بار انکی چال بازیوں کو سمجھیں ان سے سوال یہ کریں آپ نے ان پانچ سالوں میں ہمارے لیے کیا کیا ہے جن کے بنا پر ہم اس بار بھی آپ ہی کو ووٹ دیں۔ ۔

ملک صوبے اور معاشرے کی بہتری کیلئے ہمیں چاہیے کہ مشترکہ طورپر سیاسی شعور کو اجاگر کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کی تقدیر بدلنے کیلئے اپنا بہتر چناو کریں۔ ۔ ۔