1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

آپ نے کبھی سوچا کہ آپ اس دنیا میں کیوں ہیں؟ اور اگر آپ نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ آپ یقینا خوش نصیب ہیں کہ آپ اس دنیا میں ہیں۔ جب آپ کے لئے اذن ہوا کہ آپ کا وجود ہونا چاہئے تو آپ اُن لاکھوں، اربوں زندگی کے امیدواروں میں سے ایک تھے کہ جنہوں نے اکٹھے زندگی کی طرف دوڑ لگائی تھی۔ ان تمام میں سے صرف آپ ہی وہ چنیدہ تھے کہ جو آج حامل وجودِ زندگی ہیں۔ زندگی کی اس دوڑ میں کچھ ابتداء میں ہار گئے، کچھ آدھے رستے میں اور کچھ منزل پہ پہنچنے کے لئے کچھ گام کم تھے، ان سب میں صرف آپ ہی تھے جو زندگی کی بازی جیتے۔

ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ اس وقت آپ نے کیا سوچ کر زندگی کی طرف دوڑ لگائی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ تب کا ہمیں کیا پتہ، تب کون سا شعور تھا، عقل تھی۔ چلیں تب کا نہیں، اب کا ہی بتا دیں کہ کیا آپ کا وجود جو زندگی کی جنگ جیت گیا تھا، کیا حقیقتا وہ زندگی کی جنگ جیت پایا؟ کچھ کہیں گے، جی بالکل اور شاید کچھ کا جواب نفی میں ہو۔

ہاں کہنے والوں کے سامنے اس دنیا کی موجودہ زندگی ہوگی، جو 60 یا 70 سال یا اس سے کم و بیش پہ مبنی ہو اورنہ کہنے والوں کے سامنے شاید اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہو۔ یعنی ہم یہ زندگی کی جنگ جیتے زندہ رہنے کے لئے اور پھر یہ زندگی گزاری موت کے انتظار میں۔ ہم جب زندگی کی پہلی دوڑ جیتے تو کیا لے کر آئے، اور آنے کے بعد جب زندگی کی دوڑ موت پہ اختتام پذیر ہوگی تو ہمارے ہاتھوں میں کیا ہوگا۔ اگر آپ یہ کہیں کہ پہلی دوڑ میں ہم خالی ہاتھ تھے فقط زندگی کی رمق کے کر آئے، تو کیا دوسری دوڑ بھی خالی ہاتھ ہی مکمل کرنی ہے؟

جیسے پہلی دوڑ کے اختتام پہ زندگی ملی، جبکہ وہ اپنے عالم میں موت تھی، ویسے ہی اِس عالم کی موت بھی یقینا ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگی۔ پہلی دونوں زندگی کی دوڑیں شاید محدود تھی کہ ایک خاص وقت تک کی محلت اور اس کے بعد والی دوڑ شاید لامتناہی ہو۔

زندگی کی تیسری دوڑ، دوسری دوڑ کے نتیجے پہ منحصر ہے کہ ہم نے دوسری دوڑ میں دوڑتے ہوئے کتنے ثمرات، زادِ راہ اکٹھے کئے۔ زندگی کی دوسری دوڑ اس معاملے میں لائق تفکر ہے کہ نہیں پتہ کہ کب یہ دوڑ ختم ہو یا ختم کر دی جائے۔

جی ہاں، یا تو یہ دوڑ خود ختم ہو یا پھر ختم کردی جائے۔ اسے آپ یوں سمجھیں کہ رات کا وقت ہو اور آپ روشن کمرے میں بیٹھے ہوں کہ یکایک بجلی چلی جائے، آپ خود کو گھپ اندھیرے میں پائیں تو کیسا لگے گا؟ دوسری صورتحال یہ کہ روشن دن ہو، اور آہستہ آہستہ سورج شام کے وقت ڈھلے اور روشنی کم ہوتے ہوتے اندھیرے پہ منتج ہو۔ یہ قدرتی ہے اور انسان اس صورتحال کے لئے تیار ہوتا ہے جنکہ اول الذکر صورتحال میں انسان شاید بے بس کہ اچانک اسے ایسی صورتحال کا شامنا کرنا پڑا۔

اب جب یہ ہمارے علم اور شعور میں ہے نہ جانے زندگی کی روشنی اور دوڑ کب ختم ہو جائے، اس سے پہلے ہمیں اپنی اگلی زندگی کی تیاری کرنی چاہئے۔ آپ نے محسوس کیا کہ اگر ہمیں پہلی زندگی کی دوڑ کا شعور نہیں تھا تو اسکے بارے استفسار بھی کوئی نہ ہوگا، سارے حساب کتاب اور استفسار دوسری دوڑ کے بارے ہوں گے کہ یہاں شعور، علم، آگہی، قوانین موجود تھے۔

اس دوڑ کے اختتام پہ کیسی زندگی شروع ہوگی؟ وہاں ہمارے کیا اختیار ہونگے، اس دنیا سے ذیادہ یا کم؟ عالمِ برزخ میں ہمارا قیام کتنا ہوگا؟ یقینا ہمیشہ کے لئے تو نہیں ہوگا، کیا وہاں بھی ہمیں موت کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اور اس کے بعد ایک اور زندگی۔ سوچیں تو صرف انسانی دماغ میں سوائے تصورات کہ کچھ نہیں آپاتا۔

یہ سطور لکھنے اور آپ کا وقت ضائع کرنے کا مقصد صرف یہ کہ ہم اس دنیا میں کچھ ایسا کرجائیں کہ زندگی کی بساط بچھانے والا، جب آخری زندگی عطا کرنے لگے تو کہے کہ تمہیں اچھی زندگی گزارنے کا اذن ہے نہ کے ایسی زندگی گزارنے کا اذن ہو کہ جہاں اذیت ہی اذیت ہو۔ ایسا شاید تب ہی ممکن ہو کہ زندگی کی دوسرے دوڑ میں ہم اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھلا کریں اور ان کے لئے آسانیاں تخلیق کرنے کا باعث ہوں۔

مولاؑ کریم آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔