1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

یوں تو ہمارا تعلق پورے پاکستان سے ہے، وہ یوں کہ ہمارا ددھیال سیالکوٹ، ننھیال گجرات، ہماری پیدائش پشاور اور موجودہ رہائش لاہور میں ہے۔ اب تک کی یہ زندگی اسی ایک جملے میں سموئے ہوئے ہے۔ بات سیالکوٹ سے شروع کرتے ہیں۔ ابا جی نے تعلیم میٹرک تک سیالکوٹ میں حاصل کی، ابھی نتیجہ نہ آیا تھا کہ حصولِ روزگار لے لئے پشاور کا رخ کیا۔ پشاور ہی کیوں؟ وہ اس لئے کہ پشاور میں آبائی گاؤں کے کچھ لوگ آباد تھے جو روزگار کے سلسلے میں پہلے سے موجود تھے۔ سو جہاں اتنے سارے لوگ موجود تھے، ابا جی کو بھی پشاور نے پناہ دی۔

پشاور نے نہ صرف ابا جی کو نوکری دی بلکہ وہ وسیلہ بنایا کہ جس کے سبب وہ گرتے ہوئے خانوادے کو پھر سے اٹھا سکیں۔ ابا جی نے ہر 6 ماہ بعد نوکری تبدیل کی، جہاں 5 سو روپے زیادہ ملے، چلے گئے۔ صرف ایک نوکری پہ اکتفا نہیں کیا، بلکہ 3، 3 نوکریاں تک کیں۔ شہر پشاور کے سبب ابا جی نے اپنے سے چھوٹی بہنوں کا بیاہ ایسے کیا کہ دنیا نے دیکھا۔ اس کے بعد پشاور ہی کے سبب اپنی شادی کی اور اپنی دلہن کو ساتھ پشاور لے آئے۔

یوں ہم سرزمینِ پشاور پہ اس دنیا میں آئے۔ جب ہم پہ شعور کے دریچے وا ہوئے خود کو پشاور میں ہی پایا، گو ابا جی معاش کے سلسلے میں نوشہرہ بھی مقیم رہے۔ زندگی کے زینے پشاور کی گلیوں میں گزرے۔ تیسری جماعت تک تعلیم ایک انگلش میڈیم سکول جو حیات آباد کی پوش آبادی میں تھا حاصل کی۔ اس کے بعد اپنی رہائش کے قرب میں موجود سکول میں پرائمری پاس کی۔ اب تک کی کارگزاری خوب تھی۔ کلاس میں پہلی تین پوزیشنز میں سے کوئی ایک ہماری ضرور ہوتی۔

پرائمری کے بعد ہمارا سکول کا قرعہ کچھ دنوں کے لئے اسلامیہ کالجیٹ کے نام نکلا۔ کچھ دن اس لئے کے ہمارے پُھپھا جی نے اسلامیہ کالجیٹ کی مخالفت کی اور ہمارے ابا جی اور ہمیں فیڈرل گورنمنٹ بوائز سکول کی راہ دکھائی۔ یوں اگلے 5 سال اس سکول کی نظر ہوئے۔ یہاں بہت سے دوست بنے جو الحمد للہ اپنے اپنے شعبوں میں خوب نام کما رہے ہیں۔ مجموعی طور پہ ہماری پوزیشن سکول میں اچھی رہی۔ یوں ہمیں اپنی کلاس کی مانیٹری مل گئی۔ لیکن میٹرک کے امتحان میں کچھ اچھا نہ کر پائے، کیوں؟ وہ اس لئے کہ جوں ہی سکول سے فارغ ہوئے اور امتحانوں کی تاریخ کا اعلان ہوا، ہمیں 3، 4 امراض نے یوں گھیرا کہ معاملات نہایت گھمبیر ہوگئے۔ ایک شام سی ایم ایچ میں موجود، ڈاکٹر نے تفصیلی معائنہ کیا، نہایت تشویش سے کہا، کہ اگر ایک دن اور نہ لاتے، گردے فیل ہو جاتے۔

امی جی پریشان ہوئیں اور رونے لگیں۔ بستر پہ لیٹے لیٹے سر کے اشارے سے امی کو کہا، نہ روئیں، کچھ نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر کی جانب سے حکم ہوا کہ رات یہیں ایڈمٹ رہیں گے۔ اگلے دن فزکس کا پیپر۔ ابا جی نے کہا اگلے سال پیپر پھر دے لینا۔ ہم بھی ڈٹ گئے نہیں اسی سال دینا ہے اور حالت یہ کہ ڈرپ چلنے کا نام نہیں لے رہی۔ کبھی اِس ہاتھ پہ ڈرپ لگائی جا رہی کبھی اُس ہاتھ۔ رات 3 بجے گھر جانے کی اجازت ملی۔ صبح 7 بجے اٹھے، اتنی ہمت نہیں کہ چل سکوں، سو گود میں اٹھا کر سواری پہ سوار کیا اور سکول پہنچایا گیا۔ ہمیں دیکھ کر سب پریشان یہ کون ہے؟ وجہ یہ کہ بیماری کے سبب نقاہت بہت ہوگئی۔ فربہ تو خیر پہلے بھی نہ تھے اب مزید سوکھ کے کانٹا ہوگئے۔

سالانہ رزلٹ آیا، نمبر اتنے کہ نہ بہت اچھے کالج میں داخلہ مل سکے، نہ اتنے کم کہ گلی محلے کے کالج میں جاتے اچھا لگے۔ خیر، زندگی کے دو سال مزید پشاور کی نظر ہوگئے۔ ابھی آئی سی ایس کے امتحان ہو نہ پائے تھے کے لاہور کا بلاوا آگیا۔ پیپر دیئے، نتیجہ آیا اور لاہور کی جی۔سی۔ یونیورسٹی نے اپنے گلے سے لگایا۔

جی۔سی میں چار سالہ کورس میں داخلہ ملا۔ ابتداء میں محنت تو کی پر لا اُبالی پن کی وجہ سے کبھی نمایاں پوزیشن نہ لے پائے۔ یوں 6 سمسٹر گزر گئے۔ اخیر ایک کلاس لیتے ہمارے ایک محترم استاد نے پوری کلاس کو محنت نہ کرنے پہ سنائیں۔ کسی اور کا تو پتہ نہیں، لیکن مری سماعتوں اور ذہن کے دریچے کھول گئے۔ اس بات پہ ہم آج بھی ان کے لئے دعا گو ہیں۔ کہنے لگے ادب پڑھا کرو، بندہ ادب سے بھی سیکھتا ہے۔ اور پھر ایک شعر پڑھا۔۔

شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

استادِ محترم کا یہ شعر پڑھنا تھا کہ یہ شعر میرے سینے میں گولی بن کے لگا۔ مجھے یاد آیا، ہماری ماں نے ہماری خاطر زیور بیچا تھا۔ جی ہاں، جب جی۔سی میں داخلہ کروانا تھا، اتنے روپے نہ تھے کہ داخلہ ہوسکتا۔ رشتہ داروں میں کسی کو توفیق نہ ہوئی کے ادھار دے دیتا۔ امی جی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا زیور بیچ کے فیس دیں گی۔ ہم نے کہا کہ ہم نے ایسی پڑھائی نہیں کرنی کہ جو ماں کا زیور بیچ کے پڑھی جائے۔ تب امی جی نے کہا تھا، بیٹا میرا زیور تم ہو!

یہ سارا منظر کلاس میں بیٹھے بیٹھے میری آنکھوں میں گھوم گیا۔ نہایت نادم، دل شکستہ، فیصلہ کیا کہ بس، بہت ہوگیا۔ اس فیصلے کے بعد 7 واں اور 8 واں سمسٹر ٹاپ کیا۔ محنت کی اور آج اس مقام پہ ہیں کہ اللہ کریم کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

اس ساری کتھا سنانے کا مقصد صرف یہ کہ اپنی ماں، باپ اور اپنے رشتوں کی قدر کیجئے اور محنت کرتے ہوئے ناممکن کو ممکن کیجئے۔ اللہ کریم آپ سب کے حامی و ناصر ہوں۔ اللہ کریم آپ کو آسانیاں عطاء فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطاء فرمائیں۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔