1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. رخصتی

رخصتی

انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو خود روتا ہے اور جب اس دنیا سے کوچ کرتا ہے تو دنیا کو رلاتا ہے۔ یہ شاید قانونِ قدرت ہے جس پہ ہر انسان کو عمل پیرا ہونا ہے۔ انسان کے آنے اور جانے میں بہر طور ایک فرق تو ہوتا ہے جسے ناچیز نے محسوس کیا ہے۔ انسان کی آمد کے رونے میں اور جاتے وقت کے رونے میں آنسو اضافی ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ آنسو نہایت قیمتی چیز ہیں جو انسانی کرب، جدائی اور رشتے کی پاکیزگی کا مظہر ہوتے ہیں۔ شاید رشتے کی پاکیزگی کا مظہر آنسو سے بہتر کچھ اور نہ ہو۔

میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں، کل تین بھائی اور تین بہنیں۔ میں ہمیشہ سے اپنے بہن بھائیوں سے ایک فاصلے پہ رہا، خدا جانے یہ فاصلہ کہاں سے در آیا۔ دوسری طرف سے بھی میرے حصے میں ادب ہی آیا۔ آج تک نہ کھل کر وہ مجھ سے کچھ کہہ پائے اور نہ ہی میں۔ زندگی کے ایک موڑ پہ اپنی سی کوشش ضرور کی مگر بار آور نہ ہوسکا۔ سالوں کا فاصلہ ایک آدھ بار میں تو ختم نہ ہونا تھا۔ لیکن کوشش جاری ہے۔ گو کہ کافی سارا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے۔ لیکن دیر آید، درست آید۔

23 مارچ کو ہماری بہن کی رخصتی تھی۔ وہ بہن جو ہمارے ساتھ 25-26 سال اکٹھی رہی، کبھی خوشی، کبھی ناراضی، کبھی منانا سب چلتا رہا۔ 23 مارچ کی دوپہر تک سب معمول کے مطابق تھا حتیٰ کہ بارات کی آمد تک سب ٹھیک تھا۔ لیکن جیسے ہی بارات آچکی اور مہمان بیٹھ چکے میرے اندر کے حالات بدلنا شروع ہوگئے۔ ایک گھٹن کا احساس، جیسے کلیجہ کٹ رہا ہو، انسان سے کچھ چھننے والا ہو۔ میں اس کیفیت کو الفاظ میں ڈھالنے سے قاصر ہوں۔

پھر جیسے ہی بارات جانے کے لئے اٹھی، میری آنکھوں کے سامنے بہن کی پیدائش سے لیکر اسکی رخصتی تک کے مناظر میری آنکھوں کے سامنے فلم کی مانند چلنے لگے۔ دل بہت کڑا کیا، لیکن میری آنکھیں ڈبڈبانے لگیں۔ کوشش بہت تھی کہ میری آنکھیں چھلک نہ جائیں مگر پھر خود پہ اختیار نہ رہا، اور آنسو میری آنکھوں سے ٹپکنے لگے۔۔۔۔ سب نے اسٹیج پہ جا کے ان لمحات کو کیمرے کی آنکھ کے زریعے محفوظ کیا، لیکن میں نہ جا پایا۔ میں وہاں ہو کہ بھی وہاں نہ تھا۔ میں اپنے ساتھ ایک الگ ہی جنگ میں مصروف تھا۔

بہن کے سر پہ قرآن کا سایہ کیئے اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، اور بہن کے ساتھ روا رکھی زیادتیوں پہ خود کو ملامت کرتا رہا، کہ میں اسکے لئے کچھ بھی تو نہ کر پایا۔ وہ پیار جو ایک بھائی کو ایک بہن کو دینا چاہئے تھا نہ دے سکا۔ اس دوران میرا اٹھنے والا ہر قدم پشیمانی اور دکھ کا بوجھ لئے اٹھ رہا تھا۔ پھر وہ منزل بھی آئی جب وہ سب سے اپنا آخری وداع کر رہی تھی، میں ہچکچاتا رہا ملنے سے، یوں میری باری سب سے آخر میں آئی۔ خدا جانے اب تک جو ضبط کا بندھن تھا وہ کیسے ٹوٹا، میں بہن کے گلے لگ کے ہچکیاں لے لے کے روتا رہا اور اپنی زبان سے فقط ایک ہی فقرہ کہہ پایا، میرا بیٹا مجھ سے ہوئی خطاوں پہ مجھے معاف کردینا۔ اس پہ میری بہن کا میری قمیص کو زور سے بھینچنا بتا رہا تھا، کہ شاید اس نے مجھے معاف کر دیا ہے۔۔۔۔

واپسی پہ مہمان گاڑیوں میں سوار ہو کہ جانے لگے، میں پیدل ہی اپنے بیٹے کے ہمراہ گھر کی طرف گامزن ہوا، سارا راستہ آنسوں اور خیال کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری رہا۔ گھر پہنچا ایک کمرے میں زمین پہ لیٹ گیا، جیسے چھوٹے بچے تھک ہار کے زمین پہ سو جاتے ہیں، مگر میں سویا نہیں، آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہتے رہے، شاید یہ میرے گناہوں کا کفارہ ہو۔ سب دلاسے دیتے رہے لیکن اٹھنے کی ہمت نہ تھی، لیکن جب امی آئی، مجھے زمین پہ لیٹے دیکھا، میرا سر اپنی آغوش میں لیا، ضبط کا بندھن ایک مرتبہ پھر ٹوٹا اور پھوٹ، پھوٹ کے رونا شروع کر دیا۔۔۔۔۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔