1. ہوم
  2. کالمز
  3. زاہد اکرام
  4. پردیسیوں کی واپسی

پردیسیوں کی واپسی

مجھے یاد ہے جب 79ء / 80ء میں نوائے وقت، مشرق اخبا ر و میگزین پڑھتے تھے تو ایک رپورٹ نظر سے گزری جو اب بھی یاد ہے"، سعودیہ کی تعمیروترقی اور پاکستانی انجینئرز "، اس زمانے میں سعودیہ میں سڑکوں کے جال بچھ رہے تھے، بلندوبالا بلڈنگیں کھڑی ہورہی تھیں، ہسپتالوں کا نیٹ ورک تیار ہورہا تھا، بڑے بڑے محلات اور گھرتیار ہورہے تھے، دوسرے ممالک کی طرح پاکستانی انجینئرز، ڈاکٹرز، اکاونٹنٹس اور ہنرمند لیبر بڑی معقول تنخواہوں پر سعودی عریبہ کا رخ کررہے تھے، تقریباًً ہر تیسرے پاکستانی گھر سے ایک فرد یہاں ضرور پہنچا ہوگا، ہمیں بھی شوق چرایا تھا، یہ 98ء کا زمانہ تھا جب ملازمت نہ ملنے کی خواری کے بعد سعودیہ کوچ کرآئے کیونکہ اس وقت حکومت پاکستان کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بے روزگاری کا جن بوتل سے باہر آچکا تھا اور اس وقت تک یہاں بھی تقریباََ انفراسٹرکچر کا کام مکمل ہوچکا تھا یہ ملک فہد کا دور بادشاہت تھا اور یہاں کی حکومت اپنے بے روزگار افراد کو ملازمتیں دینے اور کام کی طرف راغب کر رہے تھے اور سعودائیزیشن کی آوازیں سنائی و دکھائی دے رہی تھیں، یہی مجھے مولانا مودودی صاحب کا کتابچہ بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں انہوں نے اپنے دورہ سعودی عرب 63ء کا ذکر کیا تھا اورلکھا تھا کہ سعودی عرب میں سعودائیزیشن ہورہی ہے، اب اللہ جانے اس وقت کس قسم کی سعودائیزیشن ہورہی تھی جس کا ذکر انہوں نے کیا، کیونکہ اس وقت تو سعودیہ کے خدوخال ڈھل رہے تھے شاید سعودی خدوخال وضع کیے جارہے ہوں کیونکہ اس سے پہلے تیل کی دریافت اور باگ ڈوران کے ہاتھ آئی تھی، لیکن 98ء میں سعودائیزیشن کا عمل زیادہ سے زیادہ سعودی افراد کو کام کی طرف راغب کرنا تھا جس کے لیے انھیں خواندہ کیا جارہاتھا اور حکومتی اداروں میں کھپت کی جارہی تھی جس میں وہ حق بجانب تھے اور ایسا کرنا وقت کی ضرورت بھی، خارجیوں (غیر ملکی تارکین کو خارجی /اجنبی کہتے ہیں اور محمد کہہ کر بلاتے ہیں، مجھے یاد ہے جب میں انڈیا گیا تھا تو وہاں لوگ محمڈن کہتے تھے) کیلئے سرکاری نوکریوں کے دروازے بند ہورہے تھے، کیونکہ مواطن اس کے پہلے حقدار تھے اور ہونے بھی چاہیے، پرائیویٹ کمپنیوں میں بھی سعودی کوٹہ مقرر کردیا گیاتھا، اس کے علاوہ مختلف حساس امور کے شعبہ جات پر بھی مواطن ہی ہونے چاہیے تھے، جیسے سونے جیسا مہنگاکاروبار صرف سعودی ہی کرسکتا ہے۔

70/80 کی دہائی میں جتنی ترقی تھی وہ شروع ہوئی اور اس کے لئے حکومت نے بے شمار ویزوں کا اجراء کیا لوگ دھڑا دھڑ قسمت آزمائی کیلئے آتے تھے ایک وقت آیا کی سعودیہ کا ویزہ جس کی سرکاری فیس تو چند سو ریال تھی لیکن یہی ویزہ 10 سے 15 ہزار میں ملتارہا ہے، جس کی قیمت 20 ہزار ریال تک بھی جا پہنچی تھی، پھر بھی لوگ اپنا اثاثہ بیچ کر یا قرضہ لے کر ادھر کا رخ کرتے اور کفیلوں کے زیر عتاب رہتے، پائی پائی جمع کرتے قرضہ اتارتے اپنے گھر والوں کے سکون کیلئے، بہن بھائیوں کی شادیاں کرتے گھر بناتے اور زندگی کا ایک عرصہ گذارتے مختلف قسم کی بیماریاں جن میں شوگر، بلڈپریشر، کڈنی سٹون، ہارٹ پرابلم، وغیرہ وغیرہ کے ساتھ عمر کے آخری حصہ میں گھر لوٹتے جہاں ان کی کوئی جگہ نہ بن پاتی، یہ سلسلہ اب تک چل رہا تھا لوگ خوش تھے کوئی ٹیکس نہیں بعضوں کی کمائی بے حساب انہوں نے اپنی فیملیز بھی ساتھ رکھی ہوئیں تھیں، کئی کئی سالوں اپنے ملک نہیں گئے، اگر گئے بھی تو چھٹیاں گذارنے، کئی سمجھداروں نے اپنے ممالک میں جائیدادیں بنا لیں تھیں وہ تو فائدے میں رہے اور جو اس گمان میں تھے کہ یہی دیس ہمارا ہے، وہ اب پچھتارہے ہیں، کیونکہ حکومت نے تہیہ کرلیا ہے کہ سعودی نیشنلز (مواطن) کو ہر صورت کا م کرنا ہے، جس کیلئے پہلے تو انہوں نے مختلف طریقے آزمائے جس میں کافی حد تک کامیابی ملی بھی اور بے شمار مواطن اعلی تعلیم حاصل کرکے اپنے ملک کی خدمت کررہے ہیں، جن میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور دوسرے کئی شعبوں میں آپ کو بہت سارے قابل افراد ملیں گے۔

موجودہ عالمی حالات اور دہشت گردی کے پیش نظر امن وامان قائم کرنے کی خاطر غیرقانونی اور بغیر اقامہ کے لوگوں کی پکڑدھکڑ شروع ہوئی، ریکارڈ کی درستگی نئے لیبر قوانین متعارف کروائے مختلف قسم کے جرمانے عائد کیے تاکہ وہ افراد جن کا کوئی ریکارڈ نہیں سسٹم کے تحت قانونی طور پر قیام پذیر ہوں۔ اس کے علاوہ پٹرول کی گرتی ہوئی قیمتوں نے ملکی معیشت کو نئے چیلنجز دئیے جس کیلئے ضروری ہوگیا تھا کہ انکم کے نئے ابواب کھولے جائیں، لہذا نئے ٹیکسز کا اجراء کیا گیاہے جس میں سرفہرست ڈیپنڈنٹ ٹیکس (Dependent Tax) ہے، اس ٹیکس کے مطابق جو خاندان کے ساتھ رہ رہے ہیں وہ ہر فرد کے عوض 100 ریال ماہانہ (جولائی2017 تا جون 2018ء)، پھر 200 ریال ماہانہ (جولائی2018ء تا جون 2019ء) جو بڑھتے بڑھتے 400 ریال ماہانہ تک جا پہنچے گا، یہ پلان 2020ء تک کا ہے اس کے بعد پتہ نہیں کیا نیا پلان متعارف ہوتا ہے، علاوہ ازیں پہلے چھٹی 200 ریال میں سال بھر کی لگ جاتی تھی مگر اب وہ بھی 100 ریال ماہانہ ہے، اس وقت تک کئی ہزار فیملیز اپنے اپنے ممالک کوچ کر گئی ہیں، اگلے سال دیکھیں کون جیتا ہے تیرى زلف کے سر ہونے کو۔

پرائیویٹ اداروں پر بھی ٹیکس Levy Tax کی شرح بڑھائی جارہی ہے، جن کمپنیوں میں سعودی افراد کی تعداد 50 فیصد سے کم ہوگی انکے غیر سعودی افراد پر مکتب عمل کی فیس 4800 ریا ل ہوگئی، جو پہلے 2400 تھی جو بڑھتے بڑھتے 2020ء میں 9600 ریال ہو جائے گی، لہذا اب پرائیویٹ کمپنیز والے بھی غیر ملکیوں کی چھانٹی کررہے ہیں۔ سعودائیزیشن کا یہ عمل ضرورت وقت کے تحت اتنا وسیع ہوتا جارہا ہے کہ دکانوں پر بھی مواطن ہی ہونگے، مثلاَ موبایل کی دوکانیں، پرچوں فروش وغیرہ وغیرہ، پہلے حج کیلئے بھی بڑی آسانی تھی اپنی گاڑی میں خیمہ اور ضروری سامان رکھیں فیملی کے ساتھ تقریباََ مفت حج کرآئیں، لیکن اب حج کمپنیاں جو پچھلے سال سے حکومت نے اپنی سپرویژن میں لے لی ہے 3500 سے 12000 ریال میں حج تصریح دیتی ہیں بغیر تصریح پکڑے جانے پر خروج لگا دیا جاتا ہے، ایسا کرنا بہت ضروری تھا جو بہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔ اس وقت آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے مہنگائی اور افراط دیکھنے میں آرہا ہے جس کا اثر یہاں بھی نظر آنا شروع ہوا ہے، لوگ مثال دیا کرتے تھے کہ پٹرول سستا پانی مہنگا یعنی 1 لیٹر پانی کی بوتل 1 ریال کی اور 45 ہلالہ کا لیٹر پٹرول اب وہ بھی برابر ہوگیا ہے، پیپسی 1 ریال کی تھی جو اب 2 ریال کی ملنے لگی ہیں، بجلی کے نرخ بڑھ گئے ہیں، کالم کی طوالت کی وجہ سے کافی حقیقتیں خذف کرنا پڑیں جو کسی اگلی نشست میں گو ش گذار کی جائیں گی۔

اس وقت کالم کا مقصد یہ سوال اٹھانا ہے کی اتنی تعداد میں ہنرمند، ڈاکٹرز، انجینئرز، ماہر فنوں حکومت پاکستان کیلئے باعث پریشانی نہیں ہوگی کیا؟ اس سلسلہ میں حکومت پاکستان نے کیا اقدام اٹھائے ہیں جس کے سامنے ایک تو زرمبادلہ میں واضح کمی آئے گی، دوسرے اتنی تعداد میں ہنرمندوں کی واپسی سوالیہ نشان ہے؟ ، لیکن کیوں ہوکون سا ان پربوجھ ہونگے جہاں 20 کڑور خجل ہورہے ہیں یہ بھی سہی، اتنی تعداد میں فیملیز بھی اپنے اپنے گھروں سیٹل ہو ہی جائیں گی، فکر کس بات کی؟ اس سلسلہ میں کو ئی حکومتی اقدام نظر نہیں آرہے اور نہ ہی میڈیانے کھل کر اس موضوع پر کوئی بات اٹھائی! بس پانامہ اور سیاسی اشرافیہ کی باہمی بندربانٹ اور پارلیمانی جنگ۔۔