1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. قندیل سے زینب تک

قندیل سے زینب تک

کراچی میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام ماورائے عدالت ڈاکوؤں کو انجام تک پہنچانے لگے۔ کراچی کی منتشر عوام کی طرف سے ڈاکوؤں کو جان سے مارنے، زندہ جلانے اور بدترین تشدد کے متعدد واقعات ریکارڈ پر ہیں جن کا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ابھی تک کوئی نوٹس نہیں لیا۔ جہاں یہ بات اہم ہے کہ عوام کی طرف سے اس قسم کا غیر انسانی رویہ قابل مزمت ہے وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ جب پولیس اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہے وہاں کسی کو تو ان کے بوجھ سے دھرتی کو آزاد کروانا تھا۔ لیکن میں ان سب واقعات میں خود ڈاکوؤں کو بھی ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ اگر یہ کچھ دانائی سے کام لیتے اور لوٹی گئی رقم میں سے کچھ حصہ عوام میں تقیسم کر دیتے تو عوام ان کے خلاف کھڑی نہ ہوتی۔ یہ بات آپ کو عجیب لگی ہو گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری عوام کو جہاں کوئی شیطانی فائدہ ہورہا ہو، ہماری عوام اس کو نعمت سمجھتی ہیں۔ میں اس قسم کے فائدے کو سوفیصد منقی فائدہ کہتا ہوں۔ ہماری عوام کو اگر کسی واقعہ سے سو فیصد منفی فائدہ پہنچ رہا ہو، بے شک معاشرہ اس سے مکعمل تباہ ہو جائے، لیکن ہماری زندہ قوم اس پر مکعمل خاموشی اختیار رکھتی ہے۔

آپ ایک چھوٹی سی مثال ملاخط کیجیئے، آپ کے سیل فون کے میموری کارڈ کو صرف پچاس روپے سے ہر طرح کے فحش مواد سے بھر دیا جاتا ہے۔ آپ کی عمر بارہ سال ہو یا آپ پچاس سال کے ذمہ داری شہری ہو، دونوں اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اٹھا رہے ہیں۔ یہ وہ سو فیصدمنفی فائدہ ہےجس سےمعاشرہ سو فیصد تباہ ہو رہا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک میں موجود فحاشی کا طوفان ہمارے گلی محلوں میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے بس اس پریشر ککر کے پھٹ جانے کا انتظار باقی ہے جس کی آگ بھی روزبروز تیز ہو رہی ہے۔

15 جولائی 2016 کو ایک خبر پریس میڈیا کی زینت بنی کہ قندیل بلوچ کو اس کے بھائی وسیم بلوچ نے غیرت کے نام پر قتیل کر دیاہے۔ قندیل بلوچ کا اصلی نام فوزیہ عظیم تھا وہ 1 مارچ 1990 کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئی۔ ان کا خاندان دو بہنوں اور چھ بھائیوں پر مشتمل ہے۔ فوزیہ عظیم نے اپنا کیئریر ایک پرائیوریٹ کمپنی میں "بس ہوسٹس" کے طور پر شروع کیا۔ یہ پہلی دفعہ 2013 میں منظر عام پر آئی جب ایک نجی ٹیلی ویژن پر پاکستان آئیڈل کے اڈیشن چل رہے تھے، اس نے یہاں خود کو "پنکی" کے نام سے متعارف کروایا۔ اس کا شمار ان دس شخصیات میں ہوتا تھا جس کو پاکستانی نوجوان انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ سرچ کرتے تھے اور پاکستانی نوجوانوں کی اخلاقیات کیسی ہے اس کا تذکرہ اس کالم میں کرنا مناسب نہیں کیونکہ ہماری مائیں بہنیں بھی یہ کالم پڑھتی ہوگی۔ قندیل کے قتل کی خبر ہر طرح کے میڈیا اور موم بتی مافیا پر قیامت بن کر ٹوٹی۔ کیونکہ اس کے کردار سے عوام کو سو فیصد منفی فائدہ ہو رہا تھا۔ کسی کے کردار پر کیچڑ اچھالنا ایک ناقابل معافی گناہ ہے قندیل بلوچ کے متعلق بے شمار واقعات اور کہانیاں مشہور ہوئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ شادی شدہ تھی اس کا ایک بیٹا بھی تھا اس نے 2008 میں اپنے شوہر سے طلاق لی کیونکہ وہ کسی اور جگہ شادی کی خواہش مند تھی۔ ان سب کہانیوں کے سچ یا جھوٹ ہونے کی بحث اپنی جگہ تاہم آپ گوگل پر قندیل بلوچ کے متعلق موجودہ مواد سے اس بات کا باخوبی اندازہ لگاسکتے ہے کہ وہ معاشرے میں کس قدر نیکی کا کام کر رہی تھی۔ میں موم بتی معافیا کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ قندیل بلوچ قوم کی بہادر بیٹی تھی، وہ بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ بے باک بھی تھی۔ بے شک قندیل بلوچ ایک سوچ کا نام تھا۔ اس سوچ کو خراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے میڈیا پر ڈرامے اور پروگرام بھی نشر ہوئے۔ میں ان پروڈیوسروں اور اداکاروں کا بھی شکریہ اداکرتا ہوں جنہوں نے اس سوچ کو آگے پھیلانے میں کردار ادا کیا۔ قندیل ایک مضبوط کردار کی حامل لڑکی تھی جس کے آئیڈیلز میں سنی لیون، راکھی ساونت اور پونم پانڈے جیسی اداکارایں شامل ہے۔ آپ قندیلی سوچ کا اندازہ لگائیں یہ قوم کی بیٹی ہمیشہ شارٹ کٹ کے چکر میں رہی یہ اپنی سستی مقبولیت کے پیچھے نوجوانوں کی اخلاقیات کا جنازہ نکالتی رہی، ایسے ہی ایک جنازے کی میت عمران علی بھی تھا۔

یہ قصور شہر کے انصاری محلے کا رہائشی ہے اس کی شرافت سارے محلے میں مشہور تھی۔ یہ نعت خوان بھی تھا اور نقابت بھی کیا کرتا تھا۔ لیکن یہ قندیلی سوچ سے متاثر تھا اور اسی سوچ کے زیرسایہ یہ زینب سمیت 8 قوم کی بیٹیوں کو لے بیٹھا۔ 4 جنوری 2018 کو زینب امین انصاری شام کے قریب اپنے گھر کے پاس ہی ایک جگہ قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے جایا کرتی تھی لیکن یہ آج گھر کو واپس نہیں لوٹی۔ 9 جنوری 2018 کو ایک کوڑے دان سے اس کی لاش ملتی ہے جس کو زیادتی کے بعد گلہ دبا کر ماردیا گیا۔ کیا آپ میں سے کوئی اس بات کا تصورکرسکتا ہے کہ 4 جنوری سے 9 جنوری تک بچی کس حال میں رہی ہو گی اور کیا کوئی اس بات کا تصور کرسکتا ہے کہ اس کے ماں باپ پر کیا قیامت ٹوٹی۔ عمران علی کا کیس انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں چلایا گیا سماعت روزانہ کی بنیاد پر تھی اس سلسلے میں لاہور سنٹرل جیل میں خصوصی عدالت قائم کی گئی۔ 17 فروری 2018 کو عمران علی کو 4 دفعہ سزائے موت، ایک دفعہ عمر قید، 17 سال قید بامشقت اور 3۔ 2 ملین کا جرمانہ کیا گیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس انصاف سے بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا سلسلے روک جائے گا؟

2 اپریل 2018 کو جڑانوالہ میں ایک سات سال کی بچی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا اس کی لاش قریبی کیتھوں سےملی جس کو کتے نوچ رہے تھے اور اس کی ایک ٹانگ کو کھا بھی چکے تھے اور جب تک یہ کالم نشر ہو گا اور آپ لوگ اس کو پڑھ رہے ہوگے اس وقت تک ناجانے کتنی معصوم بچیاں قندیلی سوچ کا شکار ہو چکی ہوگی۔ یہ ہے وہ انعام جو قندیلی سوچ نے ہمارے معاشرے کو عطاء کیا ہے۔ ہم باحیثیت قوم اس بات کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ ہم ایک ہی بات کو ایک ہی وقت میں صحیح اور غلط کہہ رہے ہوتے ہے۔ ہماری موم بتی مافیاء ایک طرف قندیل بلوچ کو قوم کی بیٹی کے طور پر پیش کرتی ہے اور دوسرے طرف قندیلی سوچ سے متاثر عمران علی کو سرعام پھانسی لگانے کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ ہم ایک طرف قندیل بلوچ کے اعزاز میں ٹیلی کاسٹ ہونے والے ڈرامے کی کوئی قسط نظر انداز نہیں کرتے اور دوسرے طرف اپنی فیس بک وال پر "جسٹس فار زینب" کی پوسٹ لگا رہے ہوتے ہے۔ ہم ایک طرف انٹرنیٹ پر قندیل بلوچ سے متعلقہ مواد کو تلاش کرکے اس سے فیض یاب ہوتے ہیں تو دوسری طرف زینب پر ہونے والے ظلم پر ماتم کدہ بھی ہے۔ ہم ایک طرف قندیل کے بھائی کو غلط کہتے ہیں اور دوسرے طرف زینب کے باپ کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں۔ ہم ایک طرف قندیل کی جانب سے ایک ٹاک شو میں لگائے گئے تماشے کو بڑے انہماک سے دیکھتے ہیں تو دوسری طرف زینب کا دکھ ہمیں کھائے جاتا ہے۔ زینب 8 سال کی معصوم بچی جو ہماری معاشرتی بے حسی کا نشانہ بنی۔

ہمارے اردگرد موجود اکثر لوگوں کے موبائل فون پر آپ کو ہر طرح کا فحش مواد مل جائے گا۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے 50 روپے میں میموری کارڈ فل کروارہے ہیں۔ ہم حکومت پنجاب کے فری وائی فائی سے بھی مستفید ہو جاتے ہیں۔ آپ اپنے اردگرد ایک دفعہ نظر دہرائے، آپ کو دوپٹہ نایاب ہوتا نظر آئے گا۔ آپ ٹیلی ویژن پر مسلط کلچر کا بھی مشاہدہ کریں جہاں حیاء ناپید ہوچکی، جہاں مردوں کی چیزیں بھی عورتوں کے ذریعہ فروخت کی جا رہی ہیں۔ ہمیں آج فیصلہ کرنا ہے ہم قندیل بلوچ کے ساتھ ہے یا ہمیں معاشرے کو زینب جیسے واقعات سے بچانا ہے۔ زینب کوئی پہلی بچی نہیں، اس جیسی بہت ساری بچیاں کہ شاید جن کے دکھ پر رونے والا بھی کوئی موجود نہیں ہوگا، ماضی کا قصہ بن کر رہ چکی۔ اس فیصلہ میں ہماری نوجوان نسل کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے ان کو فیصلہ کرنا ہے کہ یہ اپنی بہنوں کو کس قسم کا معاشرہ دینا چاہتے ہیں اور یہ سب ان کی غیرت پر منحصر ہے۔ رسول خدا نے ارشاد فرمایا "جب تم حیاء نہ کرو تو جو چاہے کرو" آپ کا ارشاد ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے "جس محفل میں فحش باتیں ہو رہی ہو اس محفل پر اللہ کی طرف سے لعنت برس رہی ہوتی ہے"