1. ہوم/
  2. غزل/
  3. شاہد کمال/
  4. وہ عجب شخص کہ جو جامۂ صد چاک میں تھا

وہ عجب شخص کہ جو جامۂ صد چاک میں تھا

وہ عجب شخص کہ جو جامۂ صد چاک میں تھا
خاک ہوکر بھی وہی عرصۂ افلاک میں تھا

شدتِ آتش وحشت سے دھواں اُٹھا ہے
کچھ لہو دل کا بھی شاید رگِ خاشاک میں تھا

اپنے ہاتھوں سے ہی تاراج کیا ہے اُس کو
اک نیا شہر جو آباد مری خاک میں تھا

خوں بہا مانگنے والے تجھے معلوم بھی ہے
خوں میں ڈوبا ہوا قاتل مری پوشاک میں تھا

ایسا لگتا ہے کہ پھر ٹوٹ گیا ہے شاید
ہاں کوئی خواب جو اس دیدۂ نمناک میں تھا

اتنی حیرت سے جسے دیکھ رہے ہو پیارے!
وہ ستارا تو مرے طرّۂ پیچاک میں تھا

کر لیا اس کو کسی گوشۂ وحشت نے شکار
دل سا اک مرد جو اس لشکرِ بے باک میں تھا

قلب دو نیم کی شاہدؔ یہ کسک کہتی ہے
کوئی خنجر تو، ترے لہجہ سفاک میں تھا