1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. لذتِ گناہ؟

لذتِ گناہ؟

ہم میں سے ہر کوئی بہ قدر جثہ گنہگار ہے اور جو نہیں ہے اللہ انکی نیکیوں کو سلامت رکھے اور ان میں مزید اضافہ فرمائے۔ جو احباب مجھ سمیت گناہگار ہیں اللہ ان کے گناہوں سے درگزر فرمائے۔ خدا جانے اس بات میں کیا راز ہے کہ ہر گناہ کے سرزد ہونے میں صاحب گناہ ایک خاص قسم کی لذت محسوس کرتا ہے اور اسی جذبے کے تحت وہ پیہم گناہ در گناہ کرتا رہتا ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب گناہ کی لت منہ کو لگ جاتی ہے اور پھر "چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی" کی نوبت آن پہنچتی ہے۔

ایک گناہ گار اول تو نیکی کرنے کا سوچتا نہیں اور اگر سوچے بھی تو عملی جامہ نہیں پہنا پاتا اور اگر عملی جامہ پہنا بھی پائے تو اول اول ویسا ہی احساس ہوتا ہے جیسا ایک سگریٹ نہ پینے والا پہلی بار سگریٹ پی کر احساس پاتا ہے۔ اگر بندہ مستقل مزاجی برقرار رکھے تب بھی یہ کچھ عرصہ تک ہی ممکن رہتا ہے اور اسکے بعد پھر انسان کا دل للچاتا ہے برائی کر لے۔ اگر دل میں ضمیر نام کی کوئی چیز روکے تو اسے دلاسہ دینے والا بھی ساتھ ہی ہوتا ہے، کرلو کرلو، ایک مرتبہ کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اور پھر چل سو چل۔۔۔

شاید انسانی جبلت تبدیلی پسند ہے۔ آپ اگر اپنا پسندیدہ کھانا کچھ عرصہ مسلسل کھائیں تو آپ ضرور ایک مقام آئے گا جب آپ اکتا جائیں گے۔ اور پھر آپ سوچنے لگیں گے کہ آپ یہ کھانا کیوں کھاتے ہیں؟ اور بعید نہیں کہ اس کے بعد اگر آپ وہ کھانا کھائیں جو عموماََ آپ نہیں کھاتے وہ کھانا آپ بے حد لذیذ پائیں۔ حالانکہ دونوں قسم کے کھانوں کے اجزاء ایک سے ہی رہتے ہیں اور انکی پکوائی کا معیار بھی وہی ہوتا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا انسان ایک ہی رویئے پر قائم رہ سکتا ہے؟ اگر رہ سکتا ہے تو کتنی دیر تک۔ ایک بندہ اگر نمازی ہے تو کب تک وہ نمازی رہ سکتا ہے؟ یا اگر ایک بندہ ڈاکو ہے تو وہ کب تک ڈاکو رہ سکتا ہے۔ اگر ہم تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسے کئی کردار مل جائیں گے جو ساری زندگی تو ڈاکو رہے لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا جو وہ ولی بن گیا اور ولایت کے درجے سے سرفراز ہوا۔ اورایسے کردار بھی مل جائیں گے جنکی کوئی نماز قضاء نہیں رہی مگر اس نے تخت کے لئےاپنے کسی بھائی کو زندہ بھی نہیں رہنے دیا۔

اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ اس نے آج تک گناہ نہیں کیا تو فرشتہ ہوا، اگر کوئی یہ کہے اس نے آج تک نیکی نہیں کی تو شیطان ہوا۔ سو انسان نیکی اور بدی کا مرقہ ہے۔ بات شاید اس کے تناسب کی ہے۔ نیکی کا تناسب اگر ذیادہ ہو تو کامیاب اور اگر بدی کا تناسب ذیادہ ہو تو ناکام۔ ویسے بھی دستور دنیا ہے سو میں سے سو نمبر شاید کوئی نہیں لے پاتا۔ پاس 99 والا بھی ہوتا ہے اور 33 والا بھی۔ اس کا یہ ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم 33 نمبر لینے ہی کی تاکید کر رہے ہیں۔ یقیناََ 90 نمبر لے کر پاس ہونے والا کلاس کا مانیٹر لگتا ہے جبکہ 33 نمبر لینے والا بیک بینچر ہوتا ہے۔

کسی بات سے متفق ہونا اور عمل نہ کرنا ایک اور بات ہے، اور کسی بات کا مکمل انکاری ہونا اور بات ہے۔ کسی بات پہ سکوت ایک الگ بات ہے اور کسی بات کی تضحیک ایک الگ۔ عموماََ ہمارے معاشرے میں نفرت جرم سے نہیں بلکہ مجرم سے کی جاتی ہے۔ نفرت بدی سے نہیں برا کرنے والے سے کی جاتی ہے۔ ہم کسی برے کی ایک برائی دیکھ کر فتویٰ داغ دیتے ہیں کہ یہ تو پکا جہنمی ہے۔ اور کسی کی اچھائی دیکھ کر رائے قائم کرلیتے ہیں کہ یہ تو پکا جنتی ہے۔ ہر ظاہر کا ایک باطن اور ہر باطن کا ایک ظاہر ہوتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنی سی کوشش کرتے رہیں کہ اچھائی کرتے رہیں اور برائی سے بچتے رہیں۔ اور کوشش کریں کہ نیکی چھوٹی سمجھ کے چھوڑیں نہیں اور برائی چھوٹی سمجھ کے کریں نہیں۔ آپ کسی کی پرواہ نہ کریں اپنا رب راضی کریں بھلے آپ کے بارے کوئی کچھ بھی کہتا رہے۔ آخر میں حضرت علی علیہ السلام کا یہ قول آپکی نظر کروں، تم اچھا کرو دنیا تمہیں برا کہے یہ تمھارے حق میں بہتر ہے بجائے اسکے کہ تم برا کرو اور دنیا تمہیں اچھا سمجھے۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔