1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. کچے گھڑے، پکے وعدے

کچے گھڑے، پکے وعدے

وہ اپنا زیادہ تر وقت ملک سے باہر گزارتے تھے۔ پوری فیملی بیرون ملک مقیم تھی۔ کاروباری ساکھ بہت اچھی تھی۔ بچے اچھے معیار کے سکولوں اور یونیورسیٹیوں میں پڑھتے تھے۔ اچھے معیار تعلیم کے ساتھ ساتھ معیار زندگی بھی نہایت اچھا تھا۔ ایک بیٹے نے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کر لی تھی۔ اب بیرون ملک ایک پوسٹ پر کام کررہا ہے۔ پاکستا ن میں ان کا آنا جانا بہت کم تھا۔ ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ حلقہ احباب وسیع تھا۔ جب بھی آتے دوستوں سے محفل سجی رہتی تھی۔ بیٹے مغربی تہذیب کے دلدادہ تھے۔ ہمیں عجیب نظروں سے دیکھتے تھے اور تنگ نظری کا الزام بھی لگاتے تھے۔ میں بھی اکثر ان کے پاس جا کر بیٹھ جایا کرتا تھا۔ کیونکہ میرے لئے وہ ایک ’’ آئیڈیل‘‘ کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس کی وجہ ان کی کامیابی تھی۔ انھوں نے بہت محنت، مشقت اور تکلیفوں کے ساتھ ایک مقام حاصل کیا اور اپنے خاندان کو ایک بہترین معیار عطا کیا تھا۔ وہ مجھے اپنی زندگی کی کامیابیوں کے قصے سناتے، میں بڑے غور سے سنتا، متاثر ہوتا اور ان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ ان کا قابل دید عالی شان بنگلہ دیکھنے والوں کا دل موہ لیتا ہے۔ یہ مکان اکثر بند ہی رہتا ہے۔ میری ان سے آخری ملاقات ان کے بیرون ملک جانے سے ایک دن پہلے ہوئی۔ یہ چند منٹ کی مختصر سی گفتگو تھی۔

ان کے بیرون ملک جانے سے کچھ روز بعد خبر ملی کہ وہ ہمیشہ کے لئے اس دارفانی کو الوداع کہہ گئے ہیں۔ یہ خبر صدمہ سے کم نہیں تھی۔ میں پریشان ہو گیا۔ مگر آنی کو کون ٹال سکتا ہے۔ ہر انسان کو یہاں اپنے حصے کے پل گزار کر اس عارضی دنیا کو چھوڑنا ہے۔ ڈید باڈی پاکستان لائی گئی۔ تجہیزوتدفین ہوئی اور یوں سب بیٹوں کے پیارے ’’ابا جان‘‘ اور سب دوستوں کے دل عزیز قصہ پارینہ بن گئے۔

کچھ روز قبل اس قبرستان سے گزر ہوا جہاں انکی آخری آرام گاہ ہے۔ ’’ ہم کسی کی فاتحہ پڑھیں گے تو کوئی ہمارے مرنے کے بعد ہماری فاتحہ بھی پڑھے گا‘‘ کی بنیاد پر فاتحہ خوانی کے لئے آگے بڑھا۔ ان کی قبر پر اگی لمبی لمبی گھاس دیکھ کہ اندازہ ہو تا تھا کہ جیسے مہینوں کسی بندہ بشر نے قبر کاحال تک دریافت نہیں کیا۔ میرے لئے یہ بات قابل درد اور ناقابل برداشت تھی۔ جو مجھے پریشان کر گئی۔ میں گھر آیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ میرے ذہن میں ایک لمحے میں سینکڑوں خیال آرہے تھے۔ ان کے بچوں کا معیار زندگی، کامیابیاں، ان کے والد کی ان کے لئے قربانیاں، ان کی کامیابیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے قصے میرے ذہن میں گونج رہے تھے۔ ان کی قبر پر بچھی لمبی لمبی گھاس کا اداس منظر مجھے اضطراب میں ڈالے ہوئے تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ان کی وفات کے بعد ان کے عالی شان گھر کا بھی بٹوارہ ہو گیا۔ ان کی جائیدادوں پر بھی اپنااپنا حق جما لیا گیا۔ ان کے بنک بیلنس پر بھی اپنا اپنا حصہ علیحدہ کر لیا گیا۔ ان کے بنائے کاروباروں میں بھی اپنی اپنی شراکت داری ڈال لی گئی۔ مگر تمام سہولیات کے مہیا کار کی قبر کا حال تک نہ لیا گیا۔ ان کے دعوے دار دوست شاید اب ان کے نام پر بھی ’’کون‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوں گے۔ آخرکار اس میں کیا شک کہ یہ قرآن کا فیصلہ ہے کہ ’’انسان خسارے میں ہے‘‘۔ ہم انسان بھی کیا چیز ہیں کہ جیتے ایسی شان سے ہیں کہ دنیا کی رنگینیوں میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جب ہمارا وقت آگیا تو یہ دنیا ہمیں ایک مٹی کے ذرہ برابر بھی اہمیت نہ دے گی۔ ہم پانی کے ایک بلبلے کی طرح ہوا میں ہی کہیں پھٹ جائیں گے۔

نہ جانے کب ہم ’’ہیں‘‘ سے ’’تھے‘‘ بن جائیں، ناجانے کب ہم چلتے چلتے یوں دھڑم کر کے گر پڑیں، ناجانے کب ایک نوالہ ہماری گردن میں اٹکے اور ہم اوندھے ہو کر گر پڑیں، نا جانے کب ہمارے نام کے ساتھ’’چوہدری، مرزا، مغل‘‘ ہٹا کر ہمیں ’’ مرحوم ‘ ‘ کا لقب دے دیا جائے، ناجانے کب ہم مٹی کے اوپر سے مٹی کے دھیڑ تلے پہنچ جائیں،۔ مگر نہیں۔ ہم خسارے میں ہیں۔ ہم نے ’’کچے گھڑوں سے پکے وعدے‘‘ کر لئے ہیں۔ مگرکبھی یہ نہیں سوچاکہ ناہ جانے کب ذرہ سا پانی گھڑے پر پڑے اور گھڑا بغیر آواز کے ہی ٹوٹ جائے۔ ان کی قبر کی ویرانیاں ہمیں چیخ چیخ کے ایک سبق دے رہی تھیں۔ وہ سوچنے، سمجھنے والوں کے لئے عبرت کا نشان تھی۔ جس سے ہمیں ضرور سبق لینا چاہیے۔

بہر حال ہمیں اپنی اولاد کو تمام تر سہولیات زند گی اور اچھا معیار دینے کے ساتھ اس بات کااحساس بھی باور کرانا ہوگا کہ چاہے انسان سلطنطوں کا بادشاہ ہو، قلعوں کاجاگیردار ہو یاپھر سونے کی کانوں کا مالک۔ وہ مرنے کے بعد فاتحہ کا محتاج ہی ہوتا ہے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام ہو جائیں گے تو ہماری قبریں بھی دانشوروں کے لئے عبرت کا نشان بنتی چلی جائیں گی اور لوگ پھر ہماری قبروں کو دیکھ کر ’’استغفار‘‘ کرنے لگے گے۔