1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. کاغذ کا ٹکڑہ

کاغذ کا ٹکڑہ

وہ اپنی تمام سندیں، ڈپلومے اور سرٹیفیکیٹس ایک فائل میں بند کیے، کمپنی سے کمپنی اور آفس سے آفس گھوم رہا تھا، وہ نوکری کا متلاشی تھا، اور اچھے معیار کی نوکری کا خواہشمند تھا، وہ غربت کے ہاتھوں تنگ بھی تھا، اور بے روز گاری سے مجبور بھی، وہ جہاں بھی جاتا، اپنی سی وی ڈراپ کرتا، کمپنی والے سی وی لے کر رکھ لیتے، بوقت ضرورت، اسے انٹرویو کال کی جاتی، انٹرویو کا دن اوروقت مقرر کیا جاتا، مقررہ دن وہ ٹائی کوٹ لگا کر انگریزی "لُک" بنائے، جائے انٹرویو پہنچ جاتا، انٹرویور کچھ سولات وجوابات کرتا، اُس کی چال ڈھال کو بھانپ کر اُس کی پرسنیلٹی کا اندازہ کرتا، اس کا لب و لہجہ، انداز گفتگو چیک کرتا، اور "ہم آپ کو کال کریں گے" کہہ کر واپس بھیج دیتا، وہ ایک انتہائی گرمی کا دن تھا، جب میری اُس سے ملاقات ہوئی، وہ پسینہ میں شرابور، نوکری کی تلاش میں اپنے گاؤں سے شہر آیا تھا، میرے پوچھنے پر اُس نے ساری کہانی دردناک لہجے میں سنائی، میں نے اپنے تجسس کی وجہ سے اُس کی فائل دیکھی، برخوردار نے ہر ڈگری اول ڈویژن سے پاس کر رکھی تھی، اس کے پاس کچھ اور شارٹ ہینڈ کورسز کے سرٹیفیکیٹس اور ڈپلومے تھے، خیر، کچھ دیر کی ملاقات میں اُس نے اپنی قابلیت کی شناخت کروا دی، اُس کا انداز گفتگو، اوراس کی ہچکچاہٹ بتا رہی تھی، اس کے پاس مجلس میں بولنے کا حوصلہ نہیں، اسے خود پر اعتمادبھی نہیں، نہ اس کے پاس موجودہ مارکیٹ کے بارے آگاہی تھی، اس کی ڈگریاں اور انس کی شحصیت بلکل برعکس تھیں، شاید اس نے زمانہ طالب علمی میں کتابوں کے علاوہ کوئی سیکھنے یا، سمجھنے کی کوشش نہیں کی، شاید جب اُس کو انٹر ویو کے لئے بلایا جاتا ہوگا، وہ انٹرویو لینے والے کو مطمئن نہیں کر پاتا ہوگا، کیونکہ وہ خود اعتمادی سے کوسوں دور تھا، اس کا جنرل نالج بھی ایک دو منٹ پر ختم ہوجاتا تھا، اور اس کے پاس کسی ٹاپک پر بولنے کی اہلیت بھی نہیں تھی، نہ وہ مارکیٹ میں کمپیٹ کرنے کے قابل تھا، وہ تو کسی کے ساتھ کانفی ڈینس سے بات بھی نہیں کر پاتا تھا، ور اگر کسی بات پر بحث و مباحثہ کرنا پڑتا تو صاحب اس خوبی سے بھی عاری تھے، اور اگر ان کو اپنی نوکری کے متعلق کسی سافٹ وئیر کے بارے میں پوچھا جاتا تو بھی وہ اپنی خاموشی نہیں توڑ سکتے تھے،
میں نے اُن کو بتایا کہ یہ کمپیٹیشن کا دور ہے، جہاں انسان کی قابلیت کو اُس کی سندوں پر فوقیت حاصل ہے، ہماری ڈگریز ہمیں جسٹی فائی نہیں کرتیں، بلکہ ہم اپنی ڈگریز کو جسٹی فائی کرتے ہیں، اگر ہماری ساری ڈگریز اے پلس، اور فرسٹ ڈویژن بھی ہوں، اور ہم ڈگری کی اہلیت کے مطابق قابلیت سے استثنیٰ ہوں تو وہ ڈگری کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ معنے نہیں رکھتی، یہ واقعہ اُس ایک انسان کا نہیں، بلکہ موجودہ دور کے تمام طالب علموں کا ہے، سکولوں نے جب سے تعلیم کو منافع بخش کاروبار بنا کر، طالب علموں میں قابلیت سے زیادہ نمبروں کی دوڑ لگوائی ہے، تب سے یہ جنریشن قابلیت سے عاری ہے، آپ کسی طالب علم کو روک لیجئے، اُس سے پوچھ لیجئے کہ آپ نے کون سی ڈگری کر رکھی ہے، آپ کو ان کو ان کی ڈگری کے بارے میں جج کر لیجئے، آپ کسی کو اس سے مقصد حیات پوچھ لیجئے، اگر اُس نے بتا بھی دیا تو آپ کو اس گول کو "اچیو" کرنے کے کے لئے کن کن اقدامات کا بندو بست اور کیا کیا تیاری کر رکھی ہے، کا پوچھ لیجئے، آپ کو خاموشی کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملے گی، آپ کسی کو اس کے مطالعے کے بارے میں پوچھ لیجئے، یا پھر اپنے معاشرے میں موجود طالب علموں کو پرکھ لیجئے، آپ کو سارے اپنے آج کے کام کو کل پر ٹالتے نظر آئے گے، آپ کو ہر طالب علم یہ کہتا نظر آئے گا کہ "کون پہلے سیکھا ہوتا ہے، ہم بھی سیکھ جائیں گے" تمام طالب علم ادھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں کرتے نظر آئیں گے، مگر اپنے کل کے لئے آج سے تیاری نہیں کرے گے، آپ کبھی دنیا میں ذہین اور موجد کی فہرست دیکھ لیجئے، آپ کو ان کے پاس شاید ہی کوئی بڑی ڈگری نظر آئے بلکہ وہ سب کے سب قابل تھے، اور اس بات سے آگاہ تھے کہ قابلیت کوڈگری سے زیادہ اہمیت حاصل ہے، اُن کے پاس نئے آئیڈیاز تھے، اسی بنا پر بل گیٹس نے کہا تھا کہ "میں یونیورسٹی ٹاپر نہیں، مگر تمام یونیورسٹی ٹاپرز میرے ملازم ہیں، اگر کوئی قابلیت سے عاری ہے، اور اس میں اپنی ڈگری کو جسٹی فائی کرنے کی اہلیت نہیں، تو ڈگری اس کے لئے کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔