1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. LND اور MEA (نتائج و تجاویز)

LND اور MEA (نتائج و تجاویز)

اگر آپ یا آپ کا کوئی دوست سرکاری سکول ٹیچر ہے تو آپ نے ضرور LND اور MEA کا ذکر سنا ہو گا۔ جو آئے روز کسی نہ کسی ماسٹر کی روزمرہ زندگی کے مشاغل کے آڑے آیا رہتا ہے۔ LND کاسو فیصد نتیجہ اور اس نتیجہ کو مسلسل بحال رکھنا بھی اساتذہ کو ایک قسم کی مصیبت میں جکڑے رکھتا ہے۔ جس کی بدولت اکثر اساتذہ اکتاہٹ کا شکار بھی رہتے ہیں۔ اور اکثر تو اس کو اپنے اوپر بوجھ تصور کرتے ہیں اور کچھ تو بے چارے دھبے اس ملبے تلے عجیب چڑ چڑے پن کا شکار بھی معلوم ہوتے ہیں۔

ایل، این، ڈی، کے پس منظرکو جاننے کے لئے ہمیں تھوڑا ماضی میں جانا پڑے گا۔ آج سے کچھ سال پہلے سرکاری سکول لوگوں کی نظر میں بلکل ناکارہ سمجھے جاتے تھے۔ اس کے کچھ حوالے سکولوں کی خستہ حالی اور کچھ الزام سرکاری اساتذہ پر تھوپے جاتے تھے۔ سکول پڑھائی، کام، بچوں کی حالت وغیرہ وغیرہ یوں کہ سرکاری سکولوں سے صرف وہی لوگ مطمئن تھے جو اپنے بچوں کو کسی پرائیویٹ سکول میں داخل کرانے کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔ ان تمام حقائق کے پیش نظر حکومت نے محکمہ ایجوکیشن پرخاصی توجہ دی اور اس کو ایک معیار اور ایک نام بخشنے کے لئے نئی پالیسیوں کا انعقاد بھی کیا اور سرکاری سکولوں میں معیار تعلیم کی بہتری کے لئے ہر ممکن حکمت عملی بھی اپنائی گئی۔ جو کہ حکومت پنجاب اور حکومت پاکستان کے ایک اہم ترین اقدام تھے۔ ایل، این، ڈی بھی اس ایک حکمت عملی کی کڑی ہے۔ ایل، این، ڈی اور روڈ میپ پالیسی پر عملدرآمد کیا گیا۔ ایل، این، ڈی دراصل ایک معروضی نما ٹیسٹ ہے۔ اس میں اردو، انگریزی اور ریاضی کے تمام بنیادی عناصر رکھے گئے۔ اسیسمنٹ کے لئے پرائمری سکیشن کی جماعت سوم کو ٹارگٹ کیا گیا۔ ٹیسٹ کے لئے ایم، ای، اے کو ایک ٹیب دے دیا گیا اور اے، ای، او صاحبان کو ایل، این، ڈی کی بہتری کا ٹارگٹ دے دیا گیا۔ یوں اے، ای، او صاحبان، ایل، این، ڈی کے سپروائزر اور ایم، ای، اے ایگزامنر بن گئے۔ ٹیسٹ ٹیب پہ لیا جاتا ہے اور رزلٹ کو اسی وقت ایک خاص سافٹ وئیر کے ذریعے آن لائن کر دیا جاتا ہے۔ اور اس ٹیسٹ کے نتائج مرکز لیول، ضلعی لیول پر سکور بورڈ پر شو ہوتے ہیں۔ یہ سرکار کی اچھی پالیسی ہے، اس پالیسی کے تحت اساتذہ حسن اسلوبی سے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ اور اس کے نتیجہ میں کارکردگی بھی بہتر ہے۔ ایم، ای، اے مہینہ میں ایک بار ’’سرپرائزوزٹ،، سے کر اساتذہ کی حاضری رپورٹ بھی ٹیب پر اپلوڈ کر دیتا ہے۔ اور یوں اساتذہ بھی ایم، ای، اے کے آنے تک حاضری کے پابند رہتے ہیں۔

بغیر کسی شک کے ایل، این، ڈی ایک اچھی پالیسی ہے، لیکن اس کے ٹیسٹ کے زیر دباو تمام سکولوں میں جماعت دوم سے ہی کتاب کے نصاب کو بلکل نظر انداز کر کے ایل، این، ڈی کی تیاری شروع کردی جاتی ہے۔ اور جماعت سوم میں بھی ٹیسٹ میں ’’گرین مارک،، کے لئے یہی کام باقاعدگی سے کروایا جاتا ہے۔ جبکہ باقی نصاب کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، اس کے نتیجہ میں جب وہی جماعت پاس ہو کر چہارم میں جاتی ہے تو ایل، این، ڈی کے مارے اپنے نقصان کا ازالہ نہیں کر پاتے۔ ترجمہ تو کہیں دور، لکھنا تو درکنار، پڑھ بھی نہیں پاتے کتاب دیکھ کر۔ پالیسیاں بنائی جاتیں ہیں، ان پر عملدرآمد کیا جاتا ہے اوراس پالیسی میں موجود نقائص دور کرنے کے پیش نظر اس میں ممکن تبدیلیاں بھی کی جاتیں ہیں۔ لیکن ایل، این، ڈی ایک ایسی پالیسی ہے جس کا اصل نتیجہ ہمیں لمبے عرصے بعد نظر آئے گا اور جس خمیازہ ہمیں لمبے عرصے تک بھگتنا پڑے گا۔ ایل، این، ڈی پر میری تجویز یہ کہ محکمہ ایل، این، ڈی کے تمام SLO's میں تبدیلی کرے۔ یا اس میں کتاب کے نصاب کے مطابق ٹیسٹ انسٹال کر دے۔ تا کہ اساتذہ کی احسن کارکردگی بھی بحال رہے اور طالب علم بھی نصاب سے مکمل استفاوہ کر سکیں۔

ایم، ای، اے کا ’’سرپرائز وزٹ،، واقعتا اچھا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم، ای، اے کے آنے تک تمام اساتذہ سکول میں موجود رہتے ہیں، مگر وزٹ کے بعد بلا کسی جھجھک کے ادھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں کرتے ہیں۔ اور ہٹ دھرمی پر اُتر آتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جس میں ایم، ای، اے کی وزٹ تک اعلی منصب پر بیٹھے چھٹی نہیں دیتے جس کے نتیجہ میں اساتذہ کو کسی ایسے گہرے صدمے سے دوچار ہونا پڑتا ہے کہ جس کاازالہ ممکن نہیں۔ لیکن اگر گورنمنٹ سکولوں میں ’’بائیو میٹرک،، نصب کر دے تو اساتذہ اپنے بنیادی حقوق سے بھی استفادہ کر سکیں گے اور سکولوں میں اساتذہ کی حاضری کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔