1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. لقمے کا ضرر

لقمے کا ضرر

’’ویلکم چوہدری صاحب‘‘

لڑکے کی آواز نے انہیں متوجہ کیا۔

لڑکے نے موبائل کو میز کی سطح پر رکھا، منہ پہ مسکراہٹ سجائے بڑی گرم جوشی سے ان سے ہاتھ ملانے کے لئے آگے بڑھا۔ میرے ساتھ والی کرسی گھسیٹ کر ان کو پیش کی۔ شیشے کے گلاس سے ٹشو نکالا اور جگ سے پانی بھر کر ان کے سامنے پیش کر دیا۔

میں یہ ماجرا دیکھ کر ششدر رہ گیا۔

انھوں نے میرے چہرے کے تاثرات اور سوالی نظروں کو بھانپتے ہوئے مجھے کہا کہ تم متجسس ہو؟

میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ انھوں نے بات شروع کی، بات سن کر میری ہنسی نکل گئی، بات سے پہلے آپ ایک حکایت ملاحظہ کریں۔

’’ایک بادشاہ تھا۔ اس کو ایک قاضی کی اور اپنے شہزادوں کے لئے ایک معلم کی ضرورت تھی۔ رعایا میں سب علما کو اکٹھا کیا گیا۔ ان میں سے ایک عالم کو چنا گیا اور بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ بادشاہ نے عالم کو قاضی کے عہدے کی پیشکش کی۔ عالم نے پیشکش ٹھکرا دی۔ بادشاہ نے اپنے شہزادوں کو تعلیم دینے کی پیشکش کی، مگر عالم نے وہ بھی ٹھکرا دی۔ بادشاہ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ تمہیں تین کاموں میں ایک کرنا ہو گا، یا قاضی کا عہدہ قبول کرو، یا میرے بچوں کو تعلیم دو، یا پھر میرے ساتھ میرے دسترخوان پر بیٹھ کر لقمہ لگاوُ۔ عالم مضطرب ہوا، سوچ و بچار کے بعد لقمے کی پیشکش قبول کر لی۔ باورچی کوحکم ہوا۔ طرح طرح کے کھانے تیار ہوئے۔ عالم مقررہ وقت پر پہنچا اور دعوت کھائی۔ باورچی نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ عالم ایک ایسے جال میں پھنسنے والا ہے، جس سے یہ کبھی رہائی نہیں پائے گا۔ عالم کو قاضی کا عہدہ بھی قبول کرنا پڑھے گا اور شہزادوں کو تعلیم دینا بھی ہو گی۔ چناچہ یہی ہوا۔ پہلے عالم نے لقمے کے اس ضرر سے قاضی کا عہدہ قبول کیا اور بادشاہ کے دباوُ سے شہزادوں کا معلم بھی بن گیا۔ کیونکہ شاہی دستر خوان کا ایک لقمہ ہی اس کے لئے مضر بن گیا۔ انسان جس کا کھاتا ہے گیت بھی اسی کے گاتا ہے‘‘

اب واپس آتے ہیں ان کی با ت کی طرف۔ انھوں نے بتایا کہ ایک دن اتفاقا، ایک مقامی ہوٹل میں لڑکے سے میری ملاقات ہو گئی، میں اس کا بل ادا کر دیا۔ اس کے بعد جب بھی مجھے ملتا ہے تو اس کا رویہ اسی طرح ہوتا ہے۔

اگر آپ بھی اس عمل کو اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تو کسی کو چائے کا ایک کپ پلا دیں، یا اس کو اپنے ہاں دعوت پہ مدعو کر لیں یا پھر کسی کا بل ادا کر دیں، تو آپ نتائج کا جائزہ لگالیں۔ وہ آپ کو دیکھ کر رک بھی جائے گا، آگے بڑھ کر آپ کا حال بھی دریافت کرے گا، اور اگر آپ کسی دقت کا شکار ہیں تو وہ ہمدردانہ انداز میں ہر ممکن حکمت عملی سے آپ کی مدد بھی کرے گا۔ آپ کو ’’صاحب جی، حاجی صاحب، ملا صاحب ‘‘ کا لقب بھی مل جائے گا۔ یا پھر آپ کسی سے ایک چائے کا کپ پی لیں، یا دعوت پر مدعو ہو جائیں تو آپ بھی نمک حلالی کی کوئی کسر باقی نہ چھوڑیں گے۔

لیکن یہ المیہ انفرادیت تک محدود نہیں بلکہ اس کا آپ سے واسطہ دفتری حد تک بھی پڑے گا۔ اگر آپ میری طرح سیدھے سادھے، اصولوں کے پکے اور لینے دینے کے منافی ہیں تو آپ ذرا کمر کس کے دفتری کاموں کو ہاتھ لگائیں۔ کیونکہ آپکے وہ کام بالکل اٹکے رہیں گے۔ آپ دفتروں کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک بھی جائیں، افسروں کی مہریں، دستخط کروانے کے لئے ان کا پیچھا کرتے کرتے آپکے جوتے تک گھس جائیں گے۔ مگر آپ کو مایوسی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ البتہ اگر آپ سلام لیتے ہوئے اپنی ہتھیلی پہ پانچ سو، یا ہزار کا نوٹ رکھ لیں تو آپ یقیناًکسی خفت کا شکار نہ ہوں گے۔ پانچ منٹ میں آپ کے لئے چائے بھی منگوالی جائے گی۔ آپ کے ساتھ عزت و وقار سے بھی پیش آیا جائے گا اور ترجیہاتی بنیادوں پر آپ کا کام آپ کی توقع سے پہلے آپ کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ آپ کو آپ کی گاڑی تک بھی تنہائی کا شکار نہ ہونے دیا جائے گا۔ نہ صرف یہ بلکہ ’’ اپنا خیال رکھئیے گا‘‘ جیسی ہدایات بھی کی جائیں گی اور ’’آئندہ آنے کا تکلف نا کیجیے گابلکہ موبائل پہ ہی آگاہ کر دیجیے گا، آپ کا کام ہو جائے گا‘‘ جیسی تلقین بھی کی جائے گی۔ کیونکہ انسان جس کا کھانا ہے اسی کے گیت گاتا ہے۔ لقمہ کا ضرر انسان کے لئے مضر بن جاتا ہے۔