1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. مایوسی گناہ ہے

مایوسی گناہ ہے

ایک انسان کو کتنی محنت کرنی چاہیے؟ اس نے پوچھا۔ جب تک وہ اپنے ویژن کی تکمیل نا کر لے۔ میں نے کہا۔ اگر اتنی محنت کے باوجود بھی انسان اپنے مقام کو نہ پہنچ سکے تو؟ کامیابی اور نا کامی اللہ کے ہاتھ میں۔ وہ جسے چاہے کامیاب کرے جسے چاہے اسے اس کے مقصد حیات سے دور رکھے۔ انسان کا کام ہے محنت کرنا۔ میں جواب دیا۔ اچھا تو اگر تم ناکام ہو گئے تو؟ میں سمجھوں گا کہ میں اس پوسٹ کے لئے اہل نہیں تھا۔ میں تو اس بات پر اکتفا کرلوں گا۔ میں اس سے اس کا ویژن پوچھا۔ اس کے چہرے پہ مایوسی چھا گئی، اس نے مایوسانہ لہجے میں کہا کہ میں سول انجئیرنگ تھرڈ ائیر کا سٹودنٹ ہوں، میں تو ہار مان چکا ہوں۔ میں تو شایدہی اپنی فیلڈ میں ترقی کر پاو، میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کچھ دلائل الاپ دیئے۔ وہ بغیر کوشش کے ناکامی تسلیم کر چکا تھا۔ وہ محنت کی بجائے، ہتھیار ڈال چکا تھا۔ وہ اپنی زندگی کس طرح ہینڈل کرے گا، وہ یہ بھی نہ جانتا تھا۔ میں نے اسے قرآن مجید کی آیت کا ترجمہ سنایا ’’اور یہ کہ انسان وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے، سورہ نجم، آیت 39‘‘۔

اس دنیا میں بے شمار لوگوں کی بے نظیر مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح انہوں نے اپنے کام میں حائل رکاوٹوں کا سامنا کیا۔ ہار ماننے کی بجائے محنت کرتے رہے، اور دنیا میں لوہا منوایا۔ اس میں ایک مثال ایشیاء کے سب سے امیر ترین انسان جیک ما (Jack Ma) کی بھی ہے۔

جیک ما (ما ین) چائینہ کے صوبہ جیانگ کے شہر ہانگجو میں 10 ستمبر 1964 میں پیدا ہوا۔ جیک نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے شہر کے سکول میں ہی حاصل کی۔ اسے بچپن ہی سے انگلش بولنے کا شوق تھا۔ وہ روزانہ اپنے گھر سے 40 منٹ کی مسافت طے کر کہ ایک ہوٹل میں کچھ لوگوں کے پاس جایا کرتا جو انگلش جانتے تھے۔ جیک ان کے ساتھ انگلش میں بات چیت کرتا اور بدلے میں انہیں مفت میں شہر کی سیر کرواتا تھا۔ 9 سال کی مسلسل کاوش کے بعد وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔

جیک نے سکول کی تعلیم کے بعد کالج میں داخلہ لینے کی کوشش کی۔ اس وقت چائنہ میں کالج میں داخلہ کے لیے داخلہ ٹیسٹ سال میں صرف ایک ہی بار ہوتا تھا۔ جیک 3 بار اس داخلہ ٹیسٹ میں ناکام رہا۔ مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور چوتھی کوشش میں وہ کالج میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے 1988 میں B.A کی ڈگری حاصل کی۔ بیچلر کے بعد نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ پولیس میں نوکری اپلائی کی مگر جواب میں اسے کہا جاتا ہے کہ وہ اس نوکری کے لیے فٹ نہیں ہے۔ پھر جیک کے شہر میں کے۔ ایف۔ سی شاپ کھلی، شاپ میں24 لوگوں نے جاب اپلائی کی۔ جس میں ایک جیک بھی تھا۔ باقی 23 لوگوں کو نوکری مل گئی، مگر صرف اکیلے جیک کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح جیک تقریبا 30 جگہ نوکری اپلائی کرتا رہا مگرہر بار ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا۔ مگر جیک نے ہمت نہ ہاری اور ہر مشکل کا سامنا بلند حوصلے سے کیا۔ یہ اپنے ایک دوست کی مدد سے امریکہ منتقل ہو جاتا ہے، جہاں وہ انٹرنیٹ کی دنیا سے روشناش ہوتا ہے۔ جیک انٹرنیٹ پر لفظ "beer" سرچ کرتا ہے دنیا بھر سے معلومات ملتی ہے مگر چائینہ سے کوئی معلومات نہیں ملتی۔ پھر وہ چائینہ کے بارے میں معلومات کے لیے سرچ کرتا ہے مگر وہ کچھ بھی نہ ملنے پر ششدر رہ جاتا ہے، جیک اپنے دوست کے ساتھ مل کر چائینہ کے بارے میں ایک چھوٹی سی ویب سائٹ بناتا ہے، ردعمل میں چائنیز اس کی کوشش کو سراہتے ہیں۔ جیک کو انٹرنیٹ کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ 1995 میں جیک اپنی بیوی اور اپنے دوست کے ساتھ مل کر کسی سے 20,000 ڈالر ادھار مانگ کر ایک آن لائن کمپنی کی بنیاد رکھتا ہے۔ یہ کمپنی پہلے تین سال میں ہی آٹھ لاکھ ڈالر منافع کما لیتی ہے۔

1999 جیک واپس چائینہ آکر اپنے اٹھارہ دوستوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی اپارٹمینٹ میں آن لائن کمپنی (Alibaba) کی بنیاد رکھتا ہے۔ یہ کمپنی انٹرنیٹ پر خریداری کے لئے بنائی گئی۔ بہت کم عرصہ میں یہ ویب سائٹ بھی بلندیوں کو چھونے لگی۔ جیک کی کاوشیں رنگ لانے لگیں۔ جیک مزید اور کمپنیز جن میں) Alipay) اور) (Taobao Marketplaceشامل ہیں کی بنیاد رکھتا ہے اور یہ بھی بہت کم عرصہ حاصی مقبول ہو جاتی ہیں۔

اس کی انتھک محنت اور لگن کی بدولت2004 جیک کا نام ایشیاء کے ٹاپ بزنس لیڈرز کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور اس کے اگلے سال ہی ایشیاء کے 25 ٹاپ بزنس مین میں شامل ہو جاتا ہے اوراس کے ساتھ جیک کو مزید بہت سارے اعزازات حاصل ہیں۔ اور جیک ما پوری دنیا کو ایک پیغام دے دیتا ہے اگر آپ محنتی ہیں، اگر آپ میں کام کی لگن ہے تو کوئی رکاوٹ آپ کے راستے کا کانٹا نہیں بن سکتی، بس آپ محنت کے سہارے آگے بڑھتے جائیں۔

اب آپ ہگ ہر کی کہانی ملاحظہ کیجئے۔

ہگ ہر(Hugh Herr) کا تعلق امریکہ سے ہے۔ یہ ایک کوہ پیما ہے۔ سترہ سال کی عمر میں ہگ ہر کو اپنے دوست کے ساتھ ایک برفانی طوفان کا سامنا ہوا۔ جس کے نتیجہ ہگ اور اسکا دوست برف کے نیچے دب گئے اور تقریبا تین دن تک -29 سینٹی گریڈ میں رہے۔ جب ہگ کو وہاں سے نکالا گیا تو سردی کی شدت کے باعث ہگ کی ٹانگیں متاثر ہو چکیں تھیں۔ ہگ کی زندگی بچانے کے لیے ہگ کی دونوں ٹانگیں کو گھٹنوں تک کاٹ دیا گیا۔ لیکن ہگ اپنے آپ کو ایک عظیم کوہ پیما دیکھنا چاہتا تھا، اس کی چوٹیں اسکے حوصلے کو پست نہ کر سکیں۔ ہگ نے مصنوی بوٹ ڈیزائن کیے، تا کہ وہ واپس کوہ پیمائی کر سکے۔ ہگ نے پوری دنیا کو مصنوئی پاؤں سے کوہ پیمائی کر کے نہ صرف حیران کر دیابلکہ تاریخ میں اپنا نام رقم کر دیا۔

ہمیں اپنی زندگی میں کئی ایسے افراد ملتے ہیں جو کوشش نہ کرنے کے سبب اپنی ناکامی کا الزام اپنے مقدر کو دیتے۔ اور زندگی کا بہت سا حصہ کسی شارٹ کٹ کے چکر میں ضائع کر دیتے ہیں جس کے سبب بناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ تاریخ کا مطالع کر لیجیے آپ کو بے شمار ایسے افراد ملیں گے۔ جنہوں نے اپنی زندگی کی ناکامیوں سے سبق سیکھ کر محنت کے سہارے نہ صرف دنیا میں کامیاب ہوئیں بلکہ تاریخ میں زندہ ہیں اور آج بھی دنیا ان کے کاموں کی دلیلیں دیتی ہے۔ اور جیسا کہ اللہ کی ذات نے سورہ نجم کی آیت 39 میں ارشاد فرمایا، ’’اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے، سورہ نجم، آیت 39‘‘۔ انسان کو ایک ویژن کی ضرورت ہوتی ہے، اور جب حاصی تحقیق کے بعد اپنے ویژن کو تسلیم کر لے، تو اسے حاصل کرنے کی غرض سے ڈت جائے۔ کوشش، انتھک محنت اور لگن ہی اسے اس کے مقصد تک پہنچا سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی سوچ کا دھارہ بدلنا چاہیے ہمیں اپنے مقدر سے شکو ہ کی بجاے زندگی میں اپنا نام پیدا کرنے کے لئے محنت کرنی چاہیے۔ بغیر محنت کے ناکامی تسلیم کر لینا حماقت ہے۔