1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. موت سے بڑا ڈر

موت سے بڑا ڈر

اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات تخلیق کی۔ اس کائنات کا ایک نظام بنایا۔ پھر انسان کو پیدا کر کے اس کائنات میں اپنا نائب مقرر کیا۔ انسان کے لئے طرح طرح کی نعمتیں پیدا کیں۔ تاکہ انسان ان سے لطف اندوز ہو کر پیدا کردہ مالک کی شکر گزار ی کر سکے۔ انسان کو ایک مقصد حیات عطا کیا۔ عقل، سمجھ، بوجھ عطا کر کے تمام مخلوقات پر فوقیت و فضیلت دے کر ’’اشرف المخلوقات‘‘ کا لقب عطا کیا۔ عقل جیسی عظیم نعمت کے ساتھ آزادی بھی دی کہ انسان مقصد حیات کے اصولوں کی روشنی میں اپنی زندگی کے فرائض سر انجام دے۔ ہم میں سے اکثر اللہ کے عطا کردہ مقصد پر اپنا تن، من، دھن قربان کر دیتے ہیں۔ اور اکثر زندگی کو یوں ہی ادھر اُدھر دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب کر بے مقصد گزار دیتے ہیں۔

لیکن مغربی تہذیب کے لبرل سائنسدان اس کائنات کے وجود پر کئی سوالات اٹھاتے ہیں اور ایک اس کے معرض وجود میں آنے کی ایک تھیوری پیش کرتے ہیں۔ جس کے مطابق یہ کائنات تقریبا چودہ سو سال پہلے ایک نقطہ میں سمائی ہوئی تھی۔ جس کے اندر قوت لامتناہی، دباوْ اور حرارت تھی۔ پھر وہ نقطہ ایک گرمی کی لامحدود شدت کی وجہ سے زور دار دھماکے سے پھٹا جسے بگ بینگ (بڑا دھماکہ) کہتے ہیں۔ اس دھماکے کے پہلے ایک سیکنڈ میں یہ نقطہ ایک فٹبال کی شکل اختیار کر گیا، پھرزمین، نظام شمسی اور پوری کہکشاں کے برابر ہو گیا۔ اور پھر منٹوں میں کھربوں کلومیٹرز تک پھیل گیا۔ اس تمام معمہ کو سائنسدان ’’بگ بینگ تھیوری‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

ہم الحمدللہ ایمان کی دولت سے مالامال ہیں۔ اور بغیر کسی بحث و مباحثہ کے اللہ تعالیٰ کو اس تمام کائنات کا خالق و مالک تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ایمان کا اول تقاضا ہے۔ ہم ایمان کی خاطر جان و مال تک قربان کر دینے کے لئے بھی تیار رہتے ہیں۔ اس کائنات کی تخلیق کے بارے میں تمام مذاہب کی اپنی اپنی بنائی ہوئی اور مانی ہوئی آراء ہیں۔ اس دنیا کی تخلیق کے بارے میں باہم اختلاف ہونے کے باوجودتمام مذاہب موت پر بغیر کسی بحث و مباحثہ کے اکتفا کرتے ہیں۔ موت ایک فطری عمل ہے جس کا کوئی وقت انسان کے علم میں نہیں۔ لہٰذہ اس کا خوف انسان کے سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں ایک ڈر موت سے بھی زیادہ لاحق رہتا ہے۔ جو ’’ناکامی‘‘ کا ڈرہوتا ہے۔ ہم میں سے زیادہ لوگ ناکامی کے ڈر کے سائے تلے زندگی گزار دیتے ہیں۔ ہم میں ہر انسان میں اللہ نے ایک خصوصیت رکھی ہے۔ ہم میں سے ہر انسان ایک آرٹسٹ ہے۔ لیکن ہم پوری عمر اپنی اُس خصوصیت تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم اس خصوصیت کو ڈر کے پلوں میں چھپائے رکھتے ہیں۔ ہم میں اکثر اپنی منزل کو تو پہچان لیتے ہیں مگر اُس منزل کے درمیان حائل رکاوٹوں کو اپنی سوچوں میں ہی سوچ کر ڈر جاتے ہیں اور کوشش نہیں کرتے۔ برنارڈ شاہ کہا کرتا تھا ’’جہاں انسان کی خواہش قلب اور فرض منصبی آپس میں مل جائیں، وہ انسان کی خوش بختی ہوتی ہے‘‘ لیکن ہم میں سے کون اس خوش بختی سے مالامال ہے۔ ہم میں سے کون اپنے دل کی خواہش کے تحت فرض منصبی ادا کرتا ہے۔ ہم تو اپنے دل کی آواز پہچان کر بھی اس پر عمل نہیں کرتے۔ پوری عمر خواہش قلب کی خفت ہمارے ساتھ چلتی ہے اور ہمیں اندر ہی اندر سے کھائے جاتی ہے۔ ہماری مثال اس طوطے کی سی بن جاتی ہے، جس کے پاس اڑنے کے لئے پر تو ہوتے ہیں مگر وہ گرنے کے ڈر سے اپنی زندگی محرومی میں گزار دیتا ہے۔ لیکن جب تک ہم اس ڈر کے سائے تلے بڑھتے رہیں گے، ہم اپنی خوش بختی سے دور رہیں گے۔ یوں ہمارا دل ہمیں اپنی مایوسی پر ملامت کرتا رہے گا۔ اور ہم یوں ہی ڈر کی چادر اُوڑھے خود کو الزام دیتے زندگی گزار دیں گے۔