1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. تسلیم ما بعد تحقیق

تسلیم ما بعد تحقیق

تسلیم سے پہلے تحقیق کا عمل گمراہی سے دور رکھ سکتا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اکثر ایسے پیغامات پڑھنے اور ایسی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں جن پر احادیث بمعہ حوالہ لکھی ہوتی ہے لیکن اگر اس حوالہ کو پرکھا جائے یا اس پر تحقیق کی جائے تو معلوم ہو گا کہ نہ تو کوئی حدیث اس حوالہ سے موجود نہ ہے اور اگر ہے بھی تو نہ ہی اس حوالہ پر موجود حدیث کا تعلق کہی جانے والے بات سے دور دور تک ہے۔ لیکن چونکہ ہم تحقیق نہیں کرتے تو ہم کم علمی سے اس پوسٹ کو شئیر کر دیتے ہیں جو ہمیں تو گمراہ کر چکی ہوتی ہے مگر ہم اس کو مزید پھیلا کے مزید گمراہی پھیلانے والوں میں ہو جاتے ہیں۔

ہمیں اکثر اپنے موبائل فونز پر ایسے پیغامات موصول ہوتے ہیں جن میں کسی کام کے کرنے پر کسی خوشی کی یا دوزح سے بچاوٗ کی یا بھر جنت کی بشارت دی گئی ہوتی ہے اور اس کو روکنے والے کے لئے بھی طرح طرح کی وعیدیں سنائیں گئیں ہوتیں ہیں۔ ہم اسے بھی اپنے دلوں میں بشارت کی امنگ لئے پھیلا دیتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

ایک عام سی سادہ سی مثال ہے کہ ہمیں رمضان سے پہلے پیغامات موصول ہونے شروع ہو جاتے ہیں جس میں سب سے پہلے رمضان کی مبارک باد دینے والے کے لئے جنت کی بشارت یا دوزخ کی آگ حرام ہونے کی بشارت دی گئی ہوتی ہے۔ اگر اس بات پر تحقیق کی جائے، تھوڑا سا گہرائی میں جایا جائے یا کسی اہل علم یعنی کسی مفتی، مولانا سے اس بات کے سچ یا جھوٹ ہونے پر رائے لی جائے تو آپ اس نتیجہ پر پہنچے گے کہ نہ تو ایسی کوئی حدیث کسی بھی اسلامی کتاب میں مرکوز نہیں۔ اور نہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق۔

لیکن چونکہ ہم بہت ماڈرن، لبرل اور مصروف ہو گئے ہیں کہ ہمیں کسی بات کی تحقیق کے لئے درکار وقت کی قلت ہے۔ پر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم اپنی لاپرواہی سے اپنی ہی قبر تنگ کر رہے ہیں۔ ذرا سا غور درکار ہے، سو چیے، ایک ایسی بات جس کا اسلامی شرح سے کوئی تعلق نہیں اس پر عمل کرنا یا اس کو حدیث یا پھر اسلام سے منسوب کر کے پھیلانا گھاٹے کا سودا نہیں۔

فرمان نبی پاک ﷺ ہے کہ :،

’’جو شحص میرے حوالے سے جھوٹ بات کہے، اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنا لے‘‘

ایک جاہل آدمی کو دین کی راہ سے ہٹانا آسان ہے۔ سماجی رابطوں کی سائٹس پر ایسے لاتعداد گروپ ہمیں راہ دین سے ہٹانے کے لئے سر کردہ ہیں۔ ہم کتنے علم والے ہیں اس بات کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اگر کوئی ہمیں وضو کے فرائض، سنتیں اور مسائل اور ان کا حل پوچھ لے تو ہم پھنس جاتے ہیں۔ لہذا ہمیں کسی بھی بات کو پھیلانے سے پہلے اس کے مستند ہونے کا یقین کر لینا چاہیے۔ کیونکہ نہ ہم خود گناہ کا مرتکب ہوں نہ دوسروں کو گمراہ کر سکیں۔ اور کسی بھی سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے پہچانے سے گریز کرنا چاہئے۔

ارشاد نبی پاک ﷺ ہے کہ،

’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے نقل کر دے‘‘