مجھ کو تیری وفا اب نہیں چاہیے
زخمِ دل کی دوا اب نہیں چاہیے
عمر بھر کے لیے جو ترستی رہی
اس زمیں کو گھٹا اب نہیں چاہئے
مجھ کو صحرا نوردی ہی راس آئی ہے
منزلوں کا پتا اب نہیں چاہئے
آپ ہنستے رہیں، آپ جیتے رہیں
آپ کا در کھلا اب نہیں چاہئے
خوب ہے یہ نوازش کرم آپ کی
آپ کی یہ عطا اب نہیں چاہئے
بھول جائیں مجھے، یاد رکھیں نہ اب
فاصلوں کی قضا اب نہیں چاہیے
اجنبی راستے میرے اپنے ہوئے
اپنے گھر کی فضا اب نہیں چاہئے
باد و باراں مجھے اب ستاتے نہیں
موسموں کی ردا اب نہیں چاہئے
جنگلوں کی خموشی بھی گہری ہوئی
اور حرف صدا اب نہیں چاہئے
خواب لائے ہو اب بیچنے کے لیے
آپ کا شکریہ اب نہیں چاہئے
خوف کے سارے آسیب اپنے ہوئے
حرف ردِؔ بلا اب نہیں چاہئے