غبار زخم فضا میں اچھال آے ہیں شاہد کمال18 مارچ 2017غزل0720غبار زخم فضا میں اچھال آے ہیں ہوا کے پاوں میں زنجیر ڈال آے ہیں بڑا غرور تھا دنیا کوخود پہ سو اس کوہم اک فقیر کے کاسہ میں ڈال آے ہیں سمندروں پہ ابھی تک سکوت طامزید »
درختوں کے بدن کا سبز گہنا چھین لیتی ہے شاہد کمال07 مارچ 2017غزل1706درختوں کے بدن کا سبز گہنا چھین لیتی ہےہَوائے زرد سب منظر سہانا چھین لیتی ہے تری بخشش کی اس رُت میں بھی کوئی جبر ہے شاملہنسی پھولوں کی کلیوں سے چہکنا چھین لیتی مزید »
یقیں کہتے ہیں جس کو اُس میں اک امکان رہتا ہےشاہد کمال28 فروری 2017غزل0685یقیں کہتے ہیں جس کو اُس میں اک امکان رہتا ہےمیں پتھر ہوں تو اس پتھر میں اک انسان رہتا ہے تمہارے شہر کی بنیاد میں آسیب ہے کوئییہاں جو شخص رہتا ہے بہت حیران رہتمزید »
خوشیاں مت دے مجھ کو، درد و کیف کی دولت دے سائیںشاہد کمال22 فروری 2017غزل0771خوشیاں مت دے مجھ کو، درد و کیف کی دولت دے سائیں مجھ کو میرے دل کے اک، اک زخم کی اُجرت دے سائیں میری اَنا کی شہ رگ پر خود میری اَنا کا خنجر ہےمیرے لہو کے ہر قطرمزید »
طشت از بام کردیئے جائیںشاہد کمال14 فروری 2017غزل0943طشت از بام کردیئے جائیں اور بدنام کردیئے جائیں سچ بھی اپنا وجود کھو بیٹھےاتنے اِبہام کردیئے جائیں اِس یقیں سے تو اب یہ بہتر ہےگردِ اَوہام کردیئے جائیں اب متامزید »
پھر کوئی دست خوش آزار مجھے کھینچتا ہےشاہد کمال08 فروری 2017غزل0827پھر کوئی دست خوش آزار مجھے کھینچتا ہےجذبہ عشق سرِ دار مجھے کھینچتا ہے میں محبت کے مضافات کا باشندہ ہوں کیوں ترا شہرِ پُر اسرار مجھے کھینچتا ہے یہ بھی حیرت ہےمزید »
چشمِ صحرائی سے باتیں کرتے ہیںشاہد کمال30 جنوری 2017غزل0844چشمِ صحرائی سے باتیں کرتے ہیں سورج بینائی سے باتیں کرتے ہیں شب کی رعنائی سے باتیں کرتے ہیں آؤ تنہائی سے باتیں کرتے ہیں جانے کیوں اب شام ڈھلے یہ دیدۂ و دلوحمزید »
کیا کرتے کہ اقرار کی صورت بھی نہیں تھیشاہد کمال24 جنوری 2017غزل0921کیا کرتے کہ اقرار کی صورت بھی نہیں تھیہم کرتے جو انکار یہ جرأت بھی نہیں تھی رویا ہوں بہت دیر تلک تجھ سے بچھڑ کرمجھ کو تو مگر تجھ سے محبت بھی نہیں تھی وہ دن بمزید »
جو اِن دنوں مری باتوں کا ڈھنگ ہے پیارےشاہد کمال16 جنوری 2017غزل0812جو اِن دنوں مری باتوں کا ڈھنگ ہے پیارےسب اس میں تری محبت کا رنگ ہے پیارے میں اپنے دل کی ہر اک بات تجھ سے کہہ دیتامری زباں پہ کوئی حرفِ سنگ ہے پیارے سب آرزوؤمزید »
اپنی تنہائی کا سامان اُٹھا لائے ہیںشاہد کمال13 جنوری 2017غزل0873اپنی تنہائی کا سامان اُٹھا لائے ہیں آج ہم میرؔ کا دیوان اُٹھا لائے ہیں اِن دنوں اپنی بھی وحشت کا عجب عالم ہےگھر میں ہم دشت و بیابان اُٹھا لائے ہیں وسعت حلقہ مزید »