1. ہوم
  2. غزل
  3. شائستہ مفتی
  4. بارش تھمی تو کھل گئے اسرارِ آگہی

بارش تھمی تو کھل گئے اسرارِ آگہی

بارش تھمی تو کھل گئے اسرارِ آگہی
رنگینیوں میں قید تھے افکارِ آگہی

کیا کچھ نہ ہم سے کہہ گئی صر صر کی گفتگو
غنچہ کھلا تو کھل گیا گلزارِ آگہی

باطل ہوا خیال تو یاد آگیا ہمیں
پرسش کی اک نگاہ تھی اغیارِ آگہی

تیرے کرم کی مے سے ہوئے پار دو جہاں
پھرتے ہیں دربدر ترے میخوارِ آگہی

دیر و حرم میں دل کا سکوں ڈھونڈتے رہے
رکھی ہے میرے سر پہ جو دستارِ آگہی

سوچا تھا شش جہت سے بھی آگے کی بات ہو
رستے میں کون رکھ گیا دیوارِ آگہی

لہروں کا شور تیز ہوا جارہا ہے کیوں
منزل قریب تر ہے کہ آثارِ آگہی

اک چاند راستی کا مرے گھر اتر گیا
آؤ منا لیں ہم بھی یہ تہوارِ آگہی

دریا کی تیز تیز روانی میں بہہ گئے
ہاتھوں میں تھی مرے کبھی پتوارِ آگہی