1. ہوم/
  2. غزل/
  3. شائستہ مفتی/
  4. تیری عطا کے راستے دشوار بھی نہیں

تیری عطا کے راستے دشوار بھی نہیں

‎تیری عطا کے راستے دشوار بھی نہیں
‎اور آسماں کی راہ میں دیوار بھی نہیں

‎پھر کیوں تری طلب میں ہے گھائل تمام روح
‎سنسان راستہ ہے یہ پر خار بھی نہیں

‎اب کون کر سکے گا یقیں قتل کیوں ہوئے؟
‎ہاتھوں میں میرے دوست کے تلوار بھی نہیں

‎دھندلا سا ایک عکس سرِ آئینہ تو ہے
‎اک شہر پیار کا ہے جو مسمار بھی نہیں

‎اے میرے زود رنج یہ قصہ کرو تمام
‎انکار گر نہیں ہے تو اقرار بھی نہیں

‎دستِ طلب میں نام ترا، بھول ہی تو ہے
‎اس رشتہء خلوص میں اظہار بھی نہیں

‎فنکار اب یہ سوچ رہا ہے کہ کیا کرے؟
‎صورت تراش لی ہے جو شہکار بھی نہیں