1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد نسیم رنزوریار
  4. امریکہ اور مسلم دنیا

امریکہ اور مسلم دنیا

امریکہ کی بیرونی پالیسی اور اس کے مسلم ممالک میں عسکری مداخلت کے پیچھے ایک سا فِیصلہ کن وجہ نہیں بلکہ تاریخی، جغرافیائی، تزویراتی، اقتصادی اور آیڈیلوجیکل عوامل کا مجموعہ ہے۔ امریکہ کا کردار بعض اوقات براہِ راست فوجی مداخلت میں، بعض اوقات خفیہ کارروائیوں، ڈرون حملوں، فوجی حمایت، معاشی پابندیوں اور سفارتی دباؤ کے ذریعے سامنے آیا ہے۔ ایران میں 1953 کا کامیاب CIA پشاوری فوجی و خفیہ مداخلت اس کا واضح نمونہ ہے برطانیہ اور امریکہ نے منتخب وزیر اعظم محمد مصدق کو ہٹانے میں مدد کی تاکہ برقیاتی تیل کے کنٹرول اور مغربی مفادات برقرار رہیں، اس واقعے کی دستاویزی شواہد اور CIA کی بعدازاں جزوی طور پر غیر مؤکل رپورٹس دستیاب ہیں۔

امریکہ نے عراق میں 1991 کی خلیجی جنگ کے بعد نیز 2003 میں براہِ راست حملے کے ذریعے اپنی فوجی طاقت دکھائی، 2003 کے حملے کی ایک بنیادی جوازیہ عراق کے پاس ہتھیارِ کثیرالمقاصد (WMD) کے ہونے کا دعویٰ تھا، بعد ازاں ان دعوؤں کی سچائی پر شدید سوال اٹھے اور متعدد دستاویزات نے سابقہ انٹیلی جنس کمیونٹی کی غلطیاں اور پالیسی فیصلوں کو ریکارڈ کیا۔

11 ستمبر 2001 کے حملوں کے فوراً بعد امریکہ نے افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا یہ وہ لمحہ تھا جب امریکہ نے عالمی سطح پر دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر طویل فوجی مداخلت قبول کی، اس جنگ نے 2001-2021 تک طویل دورانیہ اختیار کیا اور علاقائی پالیسیوں، اتحادی سربراہی اور داخلی فوجی پالیسیوں کو مستقل طور پر بدل دیا۔ 2011 میں لیبیا میں مبینہ "بنیادی شہری دفاع" کے مقصد سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1973 کے تحت فضائی پابندی اورنگوں کی نفاذی کارروائی شروع ہوئی اس مداخلت نے طویل مدتی سیاسی خلا، اندرونی کشمکش اور بیرونی مفادات کی کشمکش کو جنم دیا جس کا اثر آج تک دکھائی دیتا ہے۔

امریکہ نے خلافت، عسکری بیڑے، جنگی اڈے اور علاقائی شراکت داری کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی موجودگی کو مضبوط رکھنے کی کوشش کی، اس پس منظر میں تیل، بحری راستے (مثلاً سوئز کینال) اور علاقائی سیاسی اثرورسوخ کلیدی محرکات رہے ہیں جیسا کہ مصر کے ساتھ طویل فوجی اور مالی تعاون سے واضح ہے۔ امریکہ اپنی سلامتی اور اتحادی مفادات کی تشہیر کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر دہشتگردی کے خلاف سخت بیانیہ اختیار کرتا رہا ہے، مگر اسی دوران ڈرون حملوں، کوارٹرک آپریشنز اور سیکریٹ پروگراموں نے بھاری انسانی قیمتیں درپیش کیں، معتبر تحقیقی اداروں کے اندازوں کے مطابق 2001 کے بعد کے جنگی جھگڑوں میں لاکھوں افراد ہلاک یا متاثر ہوئے اور کئی گنا شہری ہلاکتیں اور بے گھریاں سامنے آئیں یہ انسانی لاگت امریکی پالیسی کے تضادات کو واضح کرتی ہے۔

امریکہ کی خارجہ پالیسی میں مستقل شائبۂ تضاد اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ عالمی دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کرتا ہے مگر بعض اوقات اپنی فوجی، اقتصادی یا خفیہ مداخلت کے ذریعے غیر مسلح شہریوں اور حکومتی ڈھانچوں کو توڑنے میں ملوث دکھائی دیتا ہے، یہ تضاد قبولیتِ عالمی قوانین، انسانی حقوق اور علاقائی خود ارادیت کے اصولوں کے خلاف سوالات کھڑے کرتا ہے۔

امریکہ کے مقاصد عموماً چند دائرہ ہائے کار میں آتے ہیں: قومی سلامتی اور دہشتگردی سے نمٹنا، توانائی اور تیل تک رسائی، جغرافیائی سیاسی فوقیت حاصل کرنا (مثلاً روس یا چین جیسے حریفوں کے اثر کو محدود کرنا) اور اپنے مضبوط اتحادی (جیسے اسرائیل) کی حمایت۔ ان ممالک میں امریکہ کی مخالفانہ کارروائیاں ہمیشہ یکساں نوعیت کی نہیں رہیں کبھی براہِ راست قبضہ یا جنگ، کبھی عسکری تربیت اور سازوسامان کی فراہمی، کبھی معاشی پابندیاں اور کبھی خفیہ آپریشنز شامل رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ مختلف ملکوں میں مختلف رہا عراق اور لیبیا میں ریاستی ڈھانچے کی کمزوری، افغانستان میں دیرپا اندرونی ٹکراؤ، ایران میں طویل معاندانہ رویہ اور فلسطین میں طاقت کے توازن کی بے تکی، سب ایک طرح یا دوسری طرح امریکی پالیسیاں اور خطے کی پیچیدگی کی عکاسی کرتے ہیں۔

تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ بعض اوقات امریکہ نے مختصر مدتی تزویراتی فوائد (مثلاً تیل یا فوجی بیسز) کو ترجیح دی اور طویل مدتی استحکام کی قیمت ادا کی، 1950-60 کی دہائیوں کے بعد سے یہی رویہ کئی موڑوں پر دہرایا گیا۔ شواہد کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی مداخلتیں صرف "اسلامی ریاستوں کے خلاف مذہبی حمیت" کے تحت نہیں بلکہ طاقت کے کھیل، معاشی مفادات اور سرد جنگی/بعدِ سرد جنگی تزویراتی حسابات کا نتیجہ ہیں۔ امریکہ نے بعض اوقات علاقائی حریف طاقتوں (مثلاً ایران) کو محدود کرنے کے لیے تزویراتی اقدامات کیے، اس کا سب سے نمایاں ثبوت ایران میں 1953 کا انقلابی نتیجہ اور بعد ازاں 1979 کے بعد جاری کشیدگی ہے۔

امریکہ نے جب عالمی منظرنامے پر "دہشتگردی کے خلاف جنگ" کا اعلان کیا تو اس نے بڑے پیمانے پر عسکری اختیارات، ڈرون ٹیکنالوجی اور خفیہ تعاونوں کو اپنایا، مگر انہی اوزاروں کے غلط استعمال، غلط انٹیلی جنس بیانات اور غیر مناسب اہداف نے مقامی اموات، نفرت اور انتقامی تحریکوں کو جنم دیا، جو بعض اوقات اصل ہدف دہشتگردی کے برعکس مزید غیر مستحکم حالات پیدا کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ نہ صرف خود دہشتگردی کے خلاف بیانیہ چلاتا رہا بلکہ بعض کارروائیوں کی بدولت وہی نتائج پیدا ہوئے جو دہشتگرد عناصر کی بڑھوتری میں معاون ثابت ہوئے مثال کے طور پر غیر ضروری شہری ہلاکتیں، حقوق کی خلاف ورزیاں اور حکومتی خلا جنہوں نے انتہاپسند گروہوں کے لیے تعاون یا بھرتی کے حالات پیدا کیے۔

معتبر تحقیقی ادارے اور یونیورسٹیاں اس انسانی اور معاشی لاگت کا حساب پیش کرتی رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کب تک ان ممالک میں"آگ جلانے" یا عسکری مداخلت میں مصروف رہے گا؟ اس کا سیدھا جواب تاریخ یا دستاویزات میں دقیق طور پر نہیں ملتا نقشہ بدلتا رہتا ہے، حدود بدلتی ہیں اور خارجہ پالیسی ہر دور کے جغرافیائی سیاسی تقاضوں کے مطابق ایڈجسٹ ہوتی ہے۔ مگر عمومی پیٹرن یہ رہا ہے کہ جب امریکہ کو کسی خطے میں سخت تزویراتی مفاد، اہم اتحادی دفاع یا بیرونی حریف کا بڑھتا ہوا اثر نظر آتا ہے تو وہ وہاں یا تو براہِ راست قدم اٹھاتا ہے یا اتحادیوں کے ذریعے اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔

نتیجتاً یہ کہنا مناسب ہوگا کہ "جب تک" یہ مفادات برقرار ہیں یا جب تک مقامی خلا امن و استحکام کے خطرات کو بڑھاتے رہتے ہیں، امریکہ کا علاقائی مداخلت کا امکان برقرار رہے گا مگر یہ طے شدہ مدت نہیں بلکہ حالات کے تابع بدلنے والا دور ہوگا۔ امریکہ کے کردار کا ایک دوسرا قابلِ غور پہلو بین الاقوامی آمرانہ طاقتوں، نیٹو اور اقوامِ متحدہ جیسے اداروں کے ساتھ تعلقات ہیں، بعض مداخلتیں بین الاقوامی منظوری کے ساتھ (جیسے لیبیا کے معاملے میں اقوامِ متحدہ قرارداد 1973) کی گئیں، جبکہ دیگر بالکل یکطرفہ یا خفیہ رہیں۔ یہ فرق قانونی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو سنبھالنے میں اہمیت رکھتا ہے۔

آخر میں، حقیقت یہ ہے کہ امریکی پالیسیوں کی تنقید صرف "ممالکی دشمنی" تک محدود نہیں بلکہ ان پالیسیوں کے نتائج، مقصدِ حکمتِ عملی، شواہد کی صداقت اور انسانی قیمت پر مبنی ہے۔ ایک متوازن جائزہ یہ مشورہ دیتا ہے کہ خطے میں دیرپا امن اور استحکام کے لیے عسکری مداخلت کے بجائے سیاسی شمولیت، معاشی سرمایہ کاری، مقامی خودارادیت کا احترام اور بین الاقوامی تعاون کو مضبوط کیا جائے ورنہ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ عسکری آپریشنز اکثر وقتی فائدہ دیتے ہیں مگر طویل مدتی عدم استحکام چھوڑ جاتے ہیں۔