1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد نسیم رنزوریار
  4. بلوچستان لیویز کا انضمام اور دیہاتوں کا مستقبل

بلوچستان لیویز کا انضمام اور دیہاتوں کا مستقبل

بلوچستان کی تاریخ میں لیویز فورس کا کردار نہایت اہم اور منفرد ہے۔ یہ ایک ایسی مقامی فورس ہے جسے نہ صرف علاقے کی زمین، قبیلوں اور رسم و رواج کا مکمل علم ہے بلکہ عوام کا ان پر اعتماد بھی مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ جب دیہاتوں میں کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا یا کوئی جھگڑا جنم لیتا، تو لیویز مقامی سطح پر اسے سلجھانے کی بھرپور کوشش کرتی۔ اس فورس کا بنیادی تصور ہی یہ ہے کہ امن و امان عوامی شراکت اور مقامی شعور کے ذریعے قائم رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ لیویز کو عام دیہاتی پولیس سے زیادہ اپنا سمجھتے ہیں اور انہیں انصاف دلانے والی قوت مانتے ہیں۔

اب حکومت نے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس پر سنجیدہ خدشات جنم لے رہے ہیں۔ پولیس کا عمومی تاثر بدعنوانی، طاقتور کے ساتھ ملی بھگت اور کمزور پر ظلم و زیادتی کا رہا ہے۔ شہروں میں آئے روز جو شکایات سننے کو ملتی ہیں، ان میں زیادہ تر رشوت، غیر قانونی گرفتاریوں، سیاسی دباؤ اور جرائم پیشہ افراد کے ساتھ گٹھ جوڑ کی کہانیاں شامل ہیں۔ اگر یہی سسٹم دیہاتوں تک منتقل ہوگیا تو یہ وہ علاقے جو آج نسبتاً پرامن ہیں، کل جرائم کی آماجگاہ بن سکتے ہیں۔

دیہات کی سادہ لوح آبادی کے لیے یہ ایک بہت بڑا صدمہ ہوگا، کیونکہ ان کی زندگی پہلے ہی غربت، بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں کی کمی کے باعث مشکل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت بلوچستان اور وفاقی حکومت عوام کے ان خدشات کو سنیں اور فیصلہ سازی میں انہیں نظرانداز نہ کریں۔ اگر لیویز کو پولیس میں ضم کرنا واقعی ناگزیر ہے تو اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسا مربوط اور شفاف نظام وضع کیا جائے جس میں احتساب کو یقینی بنایا جائے۔

دیہاتوں میں مقامی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو پولیس کی کارکردگی پر نظر رکھ سکیں اور شکایات کا فوری ازالہ کریں۔ اس کے علاوہ لیویز کے پرانے اہلکاروں کو ان کے تجربے اور مقامی تعلقات کی بنا پر خصوصی اہمیت دی جائے تاکہ عوام اور نئی پولیس فورس کے درمیان اعتماد کا پل قائم رہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف حکومت پر انحصار کرکے ہم اپنے دیہاتوں کو برائیوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ اس مقصد کے لیے سماجی و مذہبی تنظیموں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

مساجد، مدارس اور مقامی قبائلی قیادت کو چاہیے کہ وہ عوام میں بیداری پیدا کریں، جرائم کی حوصلہ شکنی کریں اور نوجوان نسل کو مثبت سمت میں رہنمائی فراہم کریں۔ اسی طرح تعلیمی ادارے اور فلاحی انجمنیں اپنے پروگراموں کے ذریعے امن و امان کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ اگر ہم سب مل کر اجتماعی طور پر کوشش کریں تو انضمام کے باوجود دیہاتوں کو جرائم سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بلوچستان کے دیہاتوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ہمیں وہ بصیرت عطا فرمائے کہ ہم اپنے فیصلے دانشمندی کے ساتھ کر سکیں۔