1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد نسیم رنزوریار
  4. مولانا محمد حنیف

مولانا محمد حنیف

دِل خون کے آنسو روتا ہے۔۔ لفظ قلم پر لرزتے ہیں اور روح کانپتی ہے جب وہ لمحہ یاد آتا ہے۔ 28 ستمبر 2019، عصر کے وقت، سرحدی شہر چمن کی تاج روڈ پر وہ دھماکہ، جس نے نہ صرف جسموں کو چیر ڈالا بلکہ بلوچستان کی غیرت، دینی سیاست، مظلوم عوام کی آواز اور حق و باطل کے درمیان کھڑے ہونے والے ایک عظیم المرتبت مردِ مجاہد کو ہم سے چھین لیا۔ آج شہید مولانا محمد حنیفؒ ہم میں نہیں، مگر ان کا کردار، ان کا جذبہ، ان کا اخلاص اور ان کی جدوجہد ہر اس دل میں زندہ ہے جو حق، حریت اور دیانت کے نام پر دھڑکتا ہے۔

مولانا محمد حنیفؒ کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جن کے کندھوں پر قوم کی نظریاتی ذمہ داریاں تھیں۔ وہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھے، مگر ان کی سیاست محض کرسی، خطاب یا جلسہ گاہ تک محدود نہ تھی۔ وہ میدانِ عمل کا وہ سپاہی تھے جو ہر محاذ پر ڈٹ کر کھڑا ہوتا اور کبھی اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹتا۔ دین اسلام کے حوالے سے مولانا محمد حنیفؒ شہید کی وابستگی محض تقریروں یا جلسوں تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ عملی مجاہد تھے۔

شریعت محمدیﷺ کا نفاذ، اسلامی اقدار کا فروغ، نوجوانوں کی دینی تربیت اور معاشرے میں اخلاقی انقلاب ان کا خواب نہیں، مشن تھا۔ چمن کی گلیاں گواہ ہیں کہ مولانا محمد حنیفؒ شہید دن ہو یا رات، کسی مظلوم کی پکار ہو یا غریب کی فریاد ہمیشہ ان کے دروازے پر حاضر تھے۔ وہ سردیوں کی سختی اور گرمیوں کی شدت میں، عوام کے دکھوں کا مداوا بنے۔ ان کے چہرے پر وہ شرافت اور درد تھا جو آج کے سیاستدانوں میں ناپید ہو چکا ہے۔ شہیدؒ صرف ایک سیاستدان نہیں تھے، وہ ایک نظریہ تھے۔ وہ ان قوتوں کا خوفناک خواب تھے جو دین کے نام پر دھوکہ دیتی ہیں اور وطن کے نام پر لوٹ مار کرتی ہیں۔ ان کے بے باک بیانات، ناقابلِ تردید سوالات اور سچائی پر مبنی تقاریر نے کئی ظالموں کو ننگا کرکے رکھ دیا۔ وہ ایک دردِ سر تھے ان عناصر کے لیے جو دین اور وطن دونوں کے ساتھ سودے بازی کرتے ہیں۔

مولانا محمد حنیفؒ شہید کا دل جمعیت کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ وہ جماعت کے مرکزی پلیٹ فارم سے نہ صرف عوام کی آواز بنے بلکہ جبر کی قوتوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے رہے۔ وہ نہ جھکے، نہ بکے اور نہ ہی کبھی مصلحت کا شکار ہوئے۔ وہ جمعیت کے "قافلے کا چراغ" تھے، جس نے اندھیری راہوں کو روشنی دی۔ مولاناؒ کا رشتہ صرف مسجد یا مدرسے سے نہیں تھا، بلکہ وہ ان عملی محاذوں پر بھی شریک رہے جہاں دین کو واقعی خطرہ تھا۔ انہوں نے مجاہدینِ اسلام کے ساتھ نہ صرف فکری بلکہ عملی تعاون بھی کیا۔ وہ اسلاف کی اُس صف سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے دین کے لیے سب کچھ قربان کر دیا۔ ان کا علم وسیع، بصیرت گہری اور گفتگو مدلل ہوتی تھی۔ وہ صرف عوام کے رہنما نہیں بلکہ علماء کے بھی رہبر تھے۔ ان کی تقاریر علم و حکمت سے بھرپور ہوتیں، جن میں صرف جذبہ نہیں، دلیل بھی ہوتی۔

جب چمن کی فضا مولاناؒ کے خون سے سرخ ہوئی، تو یوں محسوس ہوا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ وہ بم دھماکہ، محض ایک جسم کا خاتمہ نہ تھا، وہ درحقیقت ایک نظریے کو ختم کرنے کی کوشش تھی مگر وہ ناکام ہوئی۔ کیونکہ شہادتیں ختم نہیں کرتیں، شروع کرتی ہیں۔ آج جب ہم شہید مولانا محمد حنیفؒ کو یاد کرتے ہیں، تو صرف آنکھیں اشکبار نہیں ہوتیں، دل بھی سوال کرتا ہے: کیا ہم ان کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں؟ کیا ہم بھی ان کی طرح ظالم کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جرأت رکھتے ہیں؟ کیا ہم دین، عوام، وطن اور حق کے لیے آواز بلند کر سکتے ہیں؟

مولانا محمد حنیفؒ شہید ایک صدا تھے، جو آج بھی ہر مظلوم کے دل میں گونجتی ہے۔ وہ ایک حوصلہ تھے، جو نوجوانوں کو باطل سے ٹکرانے کا ہنر سکھاتا ہے۔ وہ ایک خواب تھے، جسے ہم سب کو مل کر حقیقت میں بدلنا ہے۔ شہیدؒ چلے گئے، مگر ان کا ذکر، ان کا کردار، ان کی تعلیمات، ان کی جرات اور ان کا نظریہ آج بھی زندہ ہے۔ ہم ان کی جدوجہد کو اپنی نسلوں تک پہنچائیں گے، ان کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور جب بھی وقت کا یزید سر اٹھائے گا، تو ہم مولانا محمد حنیفؒ کے راستے پر چل کر اُس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ شہیدؒ کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور ہمیں ان کے مشن کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔