1. ہوم
  2. غزل
  3. شائستہ مفتی
  4. صحرا کی ریت راستہ دکھلا گئی مجھے

صحرا کی ریت راستہ دکھلا گئی مجھے

صحرا کی ریت راستہ دکھلا گئی مجھے
خوشبو سا اک سراب تھا مہکا گئی مجھے

ٹھنڈی ہوا کا لمس تھا، اک یاد کی تھکن
میں سو گئی تھی خواب میں چونکا گئی مجھے

پھولوں کی سیج تھی، کبھی پرخار زندگی
اپنے پرائے درس بھی سکھلا گئی مجھے

تاروں بھری اداس سی رت میں تری نظر
اک خوابِ دلفریب سے بہلا گئی مجھے

اک دلنشیں خیال کی مانند تھی حیات
بھولا ہوا خیال تھا دہرا گئی مجھے

تکمیل کے عجیب مراحل تھے، شہرِ ذات
میں خود سلجھ رہی تھی کہ الجھا گئی مجھے

گھائل نہ کر سکے کبھی اغیار کے ستم
اپنوں کی دوستی تھی جو تڑپا گئی مجھے

کتنی گھنیری رات اماوس کی آ پڑی
اشکوں کی روشنی سے وہ چمکا گئی مجھے

چڑیا کا خالی گھونسلہ دیکھا تو رو پڑی
تنہائی اپنے گھر کی تھی دہلا گئی مجھے