اک سحرِ سامری کا اثر دیر تک رہاحامد عتیق سرور14 مئی 2024غزل10409اک سحرِ سامری کا اثر دیر تک رہادھرتی پہ دائروں کا سفر دیر تک رہا چھِن جائے گا، ملے گا نہیں، دل نہیں رہااک امتحانِ تابِ جگر دیر تک رہا آکاس بیل لپٹی ہوئی ہے تنمزید »
دولت درد کا انبار ہوئے جاتے ہیںرقیہ اکبر چوہدری06 مئی 2024غزل0620دولت درد کا انبار ہوئے جاتے ہیں آخرش ہم بھی ثمر بار ہوئے جاتے ہیں فصل بے برگ ہے یہ زیست تو آنکھیں لے جاخواب پلکوں پہ گراں بار ہوئے جاتے ہیں مر گیا وہ بھی کہانمزید »
ہم اس نگاہ میں رہے جو خود بہت اداس تھیسعدیہ بشیر30 اپریل 2024غزل1432ہم اس نگاہ میں رہے جو خود بہت اداس تھیجو ان کہی سی بات تھی وہ بات ہم کو راس تھی وہ راستوں کی بھیڑ سے بچ بچا کے کھو گیااک ہجوم وحشتاں میں لومڑی کی باس تھی پگھلمزید »
بہتے دریاؤں کا دکھ دیکھا بیابانی نےسید علی قاسم29 اپریل 2024غزل2390بہتے دریاؤں کا دکھ دیکھا بیابانی نےریت کا کتنا ہی نقصان کیا پانی نے ایک اجلی سی یہ چادر ہی تو بس ہوتی تھیاسے احرام کیا چاک گریبانی نے میں تجھے بھولنا آسان سمجمزید »
لوحِ دل پر کوئی تحریر نہیں ہو سکتیسید علی قاسم15 مارچ 2024غزل1706لوحِ دل پر کوئی تحریر نہیں ہو سکتیخواب ادھورے ہوں تو تعبیر نہیں ہو سکتی اس نے اک بار پکارا "مرے شاعر" کہہ کراس سے بڑھ کر مری تشہیر نہیں ہو سکتی موسمِ گل تھا سمزید »
جنم جنم کے یہ رشتے دغا نہیں کرتےشائستہ مفتی19 فروری 2024غزل2469جنم جنم کے یہ رشتے دغا نہیں کرتے تمھارے واسطے یونہی دعا نہیں کرتے قفس میں رہتے گزاری ہے ایک عمر جناببے بال و پر کے پرندے اڑا نہیں کرتے جو مل سکو تو سرِ شام سامزید »
زندگی تجھ سے سرِ راہ ملاقات ہوئیشائستہ مفتی16 فروری 2024غزل1446زندگی تجھ سے سرِ راہ ملاقات ہوئیجو نہ ممکن تھی مقدر میں وہی بات ہوئی ایک لمحے کو کھلی قوسِ قزح چہرے پراور پھر دیر تلک اشکوں کی برسات ہوئی کھیلتے رہنا کبھی رنگمزید »
اے دوست تیرے ہاتھ میں دستار دیکھ کرشائستہ مفتی12 فروری 2024غزل1396اے دوست تیرے ہاتھ میں دستار دیکھ کردل بجھ گیا ہے آج یہ سنسار دیکھ کر بادل کی طرح تیر رہا ہے تمام شہرمیں تھم گئی ہوں وقت کی رفتار دیکھ کر اب کیا گلہ کریں کہ مرمزید »
اس جہان گرد کو منظر نہیں بھایا کوئیشائستہ مفتی09 فروری 2024غزل8382اس جہان گرد کو منظر نہیں بھایا کوئیایسا لگتا ہے کہ آسیب کا سایا کوئی بوجھ بن جائے مسافر تو اسے جانے دوپاؤں میں وقت کے گرداب کو لایا کوئی روز و شب ایک تصور میںمزید »
بزم میں آئے ہیں امید کے تارے لے کرشائستہ مفتی05 فروری 2024غزل2374بزم میں آئے ہیں امید کے تارے لے کر چاکِ دامان و گریبان کے خسارے لے کر کیسی وحشت ہے کہ سہمے ہوئے لگتے ہیں خیال بے اماں گزری ہے شب، درد تمھارے لے کر دل سادہ کہ مزید »