جام، بادہ، سبو، اداسی تھیحامد عتیق سرور30 مئی 2024غزل1288جام، بادہ، سبو، اداسی تھی رند کی ہاو ہو، اداسی تھی ایک گزرا ملال تھا، پیچھے سامنے، روبرو، اداسی تھی خوف تھا، ڈر تھا جبر تھا شاید یا زمانے کی خو، اداسی تھی ایمزید »
بُت خانۂ محمل سے کہا ایک صنم نےشائستہ مفتی29 مئی 2024غزل1243بُت خانۂ محمل سے کہا ایک صنم نے پارس کیا پتھر کو ترے جوروستم نے جب خلد سے نکلے تو کہیں اور نہ ٹھہرے دل کو نہ دیا چین کسی دیر و حرم نے خاموش نگاہوں سے کیا شکوۂمزید »
دیکھو تو اشکبار ہیں یہ چاک اور چراغشائستہ مفتی27 مئی 2024غزل1295دیکھو تو اشکبار ہیں یہ چاک اور چراغ بارش میں سوگوار ہیں یہ چاک اور چراغ تنہائیوں کے کنج میں بیتے سمے کی چاپ یک گو نہ یادگار ہیں یہ چاک اور چراغ اس دھند نے تو مزید »
شام آ کر جھروکوں میں بیٹھی رہےشائستہ مفتی25 مئی 2024غزل1256شام آ کر جھروکوں میں بیٹھی رہے ساعتوں میں سمندر پروتی رہے موسموں کے حوالے ترے نام سے دھوپ چھاؤں مرے دل میں ہوتی رہے جی نہ چاہا تری محفلوں سے اٹھوں بے بسی خالیمزید »
پھول دیکھو یا کہیں پہ خار دیکھو چپ رہوآغر ندیم سحر18 مئی 2024غزل1277پھول دیکھو یا کہیں پہ خار دیکھو چپ رہوصاحبانِ علم و دانش میری مانو چپ رہو خوف کے بحر تلاطم میں ہیں ہچکولے بہتڈوب بھی جاؤ تو میرے نا خداؤ چپ رہو مار ڈالے جاؤ گمزید »
اک سحرِ سامری کا اثر دیر تک رہاحامد عتیق سرور14 مئی 2024غزل10350اک سحرِ سامری کا اثر دیر تک رہادھرتی پہ دائروں کا سفر دیر تک رہا چھِن جائے گا، ملے گا نہیں، دل نہیں رہااک امتحانِ تابِ جگر دیر تک رہا آکاس بیل لپٹی ہوئی ہے تنمزید »
دولت درد کا انبار ہوئے جاتے ہیںرقیہ اکبر چوہدری06 مئی 2024غزل0576دولت درد کا انبار ہوئے جاتے ہیں آخرش ہم بھی ثمر بار ہوئے جاتے ہیں فصل بے برگ ہے یہ زیست تو آنکھیں لے جاخواب پلکوں پہ گراں بار ہوئے جاتے ہیں مر گیا وہ بھی کہانمزید »
ہم اس نگاہ میں رہے جو خود بہت اداس تھیسعدیہ بشیر30 اپریل 2024غزل1371ہم اس نگاہ میں رہے جو خود بہت اداس تھیجو ان کہی سی بات تھی وہ بات ہم کو راس تھی وہ راستوں کی بھیڑ سے بچ بچا کے کھو گیااک ہجوم وحشتاں میں لومڑی کی باس تھی پگھلمزید »
بہتے دریاؤں کا دکھ دیکھا بیابانی نےسید علی قاسم29 اپریل 2024غزل2338بہتے دریاؤں کا دکھ دیکھا بیابانی نےریت کا کتنا ہی نقصان کیا پانی نے ایک اجلی سی یہ چادر ہی تو بس ہوتی تھیاسے احرام کیا چاک گریبانی نے میں تجھے بھولنا آسان سمجمزید »
لوحِ دل پر کوئی تحریر نہیں ہو سکتیسید علی قاسم15 مارچ 2024غزل1626لوحِ دل پر کوئی تحریر نہیں ہو سکتیخواب ادھورے ہوں تو تعبیر نہیں ہو سکتی اس نے اک بار پکارا "مرے شاعر" کہہ کراس سے بڑھ کر مری تشہیر نہیں ہو سکتی موسمِ گل تھا سمزید »